• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پی آئی اے لائسنس معطلی: 'وفاق کے بیان کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے'

شائع June 30, 2020 اپ ڈیٹ July 1, 2020
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے یورپ میں آپریشن پر 6ماہ کی پابندی عائد کردی گئی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے یورپ میں آپریشن پر 6ماہ کی پابندی عائد کردی گئی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کیے جانے پر سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اس کا اطلاق یکم جولائی 2020 کو رات بجے سے ہوگا اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جاسکے گی۔

مزید پڑھیں: یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی

قومی ایئرلائین کا کہنا تھا کہ یورپی یونین ایئرسیفٹی ایجنسی کے اس فیصلے کے نتیجے میں پی آئی اے یورپ کی تمام پروازیں عارضی مدت کے لیے منسوخ کررہا ہے۔

یورپی یونین ایئرسیفٹی ایجنسی کے اس اقدام کے بعد سیاسی رہنماؤں اور اہم شخصیات نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کا بیان حقائق کی عکاسی نہیں کرتا اور پائلٹس کے لائسنس سے متعلق وفاق کے بیان کے مقاصد کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پی آئی اے کے 141 پائلٹوں کے لائسنس مشکوک ہیں'

انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ غیر ذمے دارانہ بیان سے پی آئی اے کا یورپ اور برطانیہ میں آپریشن متاثر ہوا اور اس صورتحال کا نتیجہ قومی ایئرلائن کی تقریباً بندش کا نتیجہ بن سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کیا یہ بیان حکومت کے حامی کارٹل کی سپورٹ کے لیے دیا گیا اور کیا یہ بیان پی آئی اے کو کارٹل کی جھولی میں ڈالنے کے لیے دیا گیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ پائلٹ لائسنس پر وفاق کے غیر ذمے دارانہ بیان کے پی آئی پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اس معاملے کو فی الفور سننجیدگی سے لیتے ہوئے حل کیا جانا چاہیے۔

سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اسحاق ڈار نے سماجی رابطوں کی ویب ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ لوگوں کے غیرذمے دارانہ بیانات کے سبب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا یورپ میں آپریشن منسوخ کردیا گیا ہے اور اس فیصلے میں تبدیلی کے لیے فوری ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ویتنام نے مبینہ جعلی ڈگری پر 20 پاکستانی پائلٹس کو معطل کردیا

چیئرمین قومی وطن پارٹی آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا کہ چھ ماہ کے لیے پی آئی اے فلائٹس کی یورپ کے لیے معطلی ملک کے لیے بڑا دھچکا ہے، برطانیہ نے بھی اس اقدام کی پیروی کی ہے جو پی آئی اے کے لیے بڑی مارکیٹ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یورپی یونین ایسوی ایشن ایجنسی نے پی آئی اے کا لائسنس منسوخ کردیا ہے، نہ صرف حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کی طرح اس ملک، اداروں اور پیشہ ورانہ افراد کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں جھوٹا بیان پاکستان میں ایوی ایشن کے لیے تباہی کی مانند ہے، پی آئی اے یورپی سرحدوں اور فضائی حدود میں نہیں اڑ سکے گی، تحریک انصاف اس طرح پاکستان کو تباہ کر رہی ہے، جتنا جلدی ہم اس گلی سڑی حکومت سے چھٹکارا حاصل کریں گے اتنا ہی بہتر ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنس کا معاملہ: پی آئی اے کی خدشات پر دلاسہ دینے کی کوشش

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ سارے مشتبہ ہیں، 121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'سی پی ایل کی تعداد 109، اے ٹی پی ایل 153 ہیں، یہ سارے مشکوک لائسنس کے حامل ہیں، ان کی فہرست تمام متعقلہ اداروں کو بھیج دی گئی ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024