• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی

شائع June 30, 2020 اپ ڈیٹ July 1, 2020
یورپی یونین نے قومی ایئرلائن کو 3 جولائی تک آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دی—فائل فوٹو:اے پی پی
یورپی یونین نے قومی ایئرلائن کو 3 جولائی تک آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دی—فائل فوٹو:اے پی پی

یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا۔

پی آئی اے کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس کا اطلاق یکم جولائی 2020 کو رات بجے سے ہوگا۔

ساتھ ہی پی آئی اے کے بیان کے مطابق اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جاسکے گی۔

قومی ایئرلائن کا کہنا ہے کہ یورپی یونین ایئرسیفٹی ایجنسی کے اس فیصلے کے نتیجے میں پی آئی اے یورپ کی تمام پروازیں عارضی مدت کے لیے منسوخ کررہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ جن مسافروں کے پاس پی آئی اے کی بکنگ ہے ان کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ بکنگ آگے کروا لیں یا رقم واپس لے لیں۔

مزید پڑھیں:28 پائلٹس کے لائسنس جعلی ثابت، کیس کابینہ میں لے جانے کا فیصلہ

ترجمان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے یورپی یونین کی فضائی سیفٹی کے ادارے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کی جارہی ہے اور امید ہے کہ یہ معطلی جلد ختم ہوگی اور پروایں بحال ہوسکیں گی۔

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترجمان پی آئی اے نے کہا کہ بعدازاں یورپی یونین نے قومی ایئرلائن کو 3 جولائی تک آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔

ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ کی جانب سے یورپی حکام سے رابطے کے بعد یورپی یونین نے فلائٹ آپریشن میں توسیع کی۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی انتظامیہ ،دفتر خارجہ اور پاکستانی سفرا یورپی حکام سے رابطے میں ہیں۔

ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ پی آئی کی پراوزیں پی کے -785 اور پی کے-786 معمول کے مطابق آپریٹ کریں گی جبکہ دیگر پروازوں کے شیڈول کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

ایاسا کا خط

قبل ازیں 30 جون (منگل ) کو پی آئی اے کو ارسال کیے گئے 4 صفحات پر مشتمل خط میں یورپی فضائی تحفظ کے ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ 'یورپی پارلیمنٹ اور کونسل کے آرٹیکل (1)82 ریگولیشن (ای یو) 2018/1039، کمیشن ریگولیشن (ای یو) نمبر 452/2014 کے اے آر ٹی.235(اے) کے ضمیمہ نمبر 2 (پارٹ-اے آر ٹی) کے تحت یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کو (17 مئی 2016) کو جاری کردہ تھرڈ کنٹری آپریٹر(ٹی سی او) اجازت نامہ نمبر EASA.TCO.PAK-O001.01 معطل کرتی ہے'۔

ایاسا نے کہا کہ شکاگو کنونشن کے ضمیمہ 6 کے حصہ اول اور ضمیمہ نمبر 19 کے تحت آپریٹر، سیفٹی منیجمنٹ سسٹمز کے تمام عناصر پر مؤثر انداز میں عملدرآمد کا مظاہرہ نہیں کرسکا۔

یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے کہا کہ ہمیں موصول معلومات کے مطابق 24 جون کو وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے پاکستانی پارلیمنٹ میں تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ پاکستانی حکام سے جاری کردہ اور پاکستانی آپریٹرز کے پائلٹس کی جانب سے استعمال کرنے والے لائسنسز میں 860 میں سے 260 سے زائد کے جعلی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ صرف پی آئی اے سے منسلک نہیں‘

خط میں کہا گیا کہ 'ان معلومات کی بنیاد پر ایاسا کو پاکستانی پائلٹ کے لائسنز کی توثیق کے حوالے سے تشویش ہے اور آپریٹر کی ریاست کی حیثیت سے پاکستان، قابل اطلاق بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنے آپریٹرز اور ہوائی جہاز کی تصدیق اور نگرانی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا'۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اے آر ٹی آرٹ235 (اے) (2) کے پارٹ- اے آر ٹی کے تحت ایاسا کو اس صورتحال میں خاطر خواہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ 26 جون کو ایاسا نے باضابطہ طور پر پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کو بذریعہ خط نوٹس جاری کیا تھا کہ پارٹ-اے آر ٹی کے اے آر ٹ235(اے)(1) اور (2) کے تحت ایاسا ٹی سی او آتھارائزیشن معطل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی پی آئی اے کو ایاسا کی جانب سے اجازت نامے کی معطی کے ارادے پر اپنی آواز اٹھانے کا موقع دیا گیا تھا۔

ایاسا کے خط کے جواب میں 28 جون کو پی آئی اے کارپوریشن نے اپنی رائے اور اضافی معلومات فراہم کی تھیں۔

تاہم ایاسا نے کہا کہ ' یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے اس مواد کو ناکافی قرار دیا تھا'۔

معطلی، اپیل کا حق

ادھر پارٹ- اے آر ٹی کے اے آر ٹی.235(بی) کے مطابق نوٹی فکیشن کی تاریخ سے لے کر 6 ماہ تک ٹی سی او اجازت نامہ معطل کردیا گیا ہے۔

اس عرصے کے دوران اگر ایاسا مطمئن ہوگیا کہ کامیاب اصلاحی کارروائی کی گئی تو ٹی سی او اجازت نامہ بحال ہوسکتا ہے۔

تاہم 6 ماہ تک معطلی کی مدت پوری ہونے کے بعد ایاسا اگر اصلاحی کارروائی سے متعلق مطمئن نہیں ہوا تو وہ پارٹ-اے آر ٹی کے اے آر ٹ.235(بی) کے تحت 3 ماہ کے لیے معطلی میں توسیع کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پائلٹس کے 'مشکوک لائسنسز' سے پی آئی اے، سی اے اے کی ساکھ متاثر

پی آئی اے کارپوریشن کے پاس ریگولیشن(ای یو) 2018/1139 کے آرٹیکلز 108 سے 114 کے تحت 2 ماہ کے اندر ایاسا کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہے۔

اس کے لیے پی آئی اے کو اپیل دائر کرنے کے لیے مطلوبہ فیس ادا کرنا ہوگی جبکہ اپیل نوٹی فکیشن فارم متعلقہ ہدایات کے ساتھ ایاسا ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔

پاکستانی ایئرلائنز کو اقوام متحدہ کی فہرست سے ہٹادیا گیا

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا ہے اور پاکستان میں موجودہ اقوام متحدہ کے عملے کو مئی 2020 میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقات کے تناظر میں پاکستان میں رجسٹرڈ کسی ایئرلائن میں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 پاکستان میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی تمام ایجنسیوں کو یو این ڈی ایس ایس کے چیف سیکیورٹی ایڈوائزر سے جاری کردہ ٹریول ایڈوائزری کے مطابق تجویز کردہ فہرست سے پاکستانی ایئر لائنز کی برطرفی ایک عارضی کارروائی ہے جو تاحکم ثانی برقرار رہے گی۔

اس کے علاوہ یو این ڈی ایس ایس کے اہلکاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تحقیقات اور اس کے بعد متعلقہ جائزے تک پاکستان میں رجسٹرڈ ائیر آپریٹرز کا استعمال بند کردیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کا 150 'مشکوک لائسنس' والے پائلٹس کو کام سے روکنے کا فیصلہ

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کا ہر سیکیورٹی منیجمنٹ سسٹم (یو این ایس ایم ایس) اپنے عملے کے سرکاری سفر میں ایئر آپریٹرز کے استعمال سے متعلق فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے۔   ٹریول ایڈوائزری میں کہا گیا کہ'حادثے کی حالیہ معلومات کے تناظر میں پاکستان میں رجسٹرڈ ایئر آپریٹرز کے استعمال میں احتیاط کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے'۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر کی جانب سے پاکستانی ایئر لائنز پر سفری پابندیوں کے اثرات سے متعلق کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی ایئر لائنز کے ذریعے سفر پر پابندی سے اقوام متحدہ کے عملے کو ملک کے مختلف حصوں میں سفر کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں اقوام متحدہ کے ادارے ترقیاتی منصوبوں کو مالی معاونت فراہم کررہے ہیں جبکہ اندرون ملک کوئی غیر ملکی پرواز آپریٹ نہیں کرتی۔   سفری پابندی سے متعلق سوال پر اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اب بعذریعہ سڑک ہی سفر کا آپشن باقی رہ گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث پروجیکٹ سائٹس پر اقوام متحدہ کے عہدیداروں کی نقل و حرکت محدود ہوگئی ہے تاہم صورتحال بہتر ہونے اور معمول پر لوٹنے کے بعد فضائی سفر پر پابندی اقوام متحدہ کے نظام کے کام میں رکاوٹ بنے گی۔

جعلی لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد 26 جون کو وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:ویتنام نے مبینہ جعلی ڈگری پر 20 پاکستانی پائلٹس کو معطل کردیا

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ سارے مشتبہ ہیں، 121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'سی پی ایل کی تعداد 109، اے ٹی پی ایل 153 ہیں، یہ سارے مشکوک لائسنس کے حامل ہیں، ان کی فہرست تمام متعقلہ اداروں کو بھیج دی گئی ہے'۔

غلام سرور خان نے ایوی ایشن کے 5 عہدیداروں کو برطرف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'پی آئی اے کو 141 پائلٹس کی فہرست دی گئی، ایئربلیو کو 9 پائلٹس کی فہرست دی اور کہا کہ یہ مشکوک ہیں لیکن انہوں نے اس تاثر کو رد کیا، اسی طرح سرین کو بھی کہا گیا کہ ان پائلٹس کو پروازوں کی اجازت نہیں دی جائے'۔

پائلٹس کے خلاف یہ قدم مئی 2020 میں کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ جہاز کے پائلٹس نے معیاری طریقہ کار پر عمل نہیں کیا تھا۔

کراچی میں اس حادثے میں جہاز میں سوار 97 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 2 افراد معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔

بعد ازاں ویتنام کی سول ایوی ایشن کے حکام نے مبینہ جعلی لائنسس اسکینڈل سامنے آنے کے بعد متعلقہ وزارت کی ہدایت پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے کم از کم 20 پائلٹس کو معطل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:مشکوک لائنس کا معاملہ: ویتنام نے پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا

ویتنام کی سول ایوی ایشن (سی اے اے وی) کے ڈائریکٹر ڈنھویٹ تھنگ کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ وزارت ٹرانسپورٹ کی ہدایت پر کیا گیا تھا۔

ڈنھویٹ تھنگ نے کہا کہ تقریباً 20 پائلٹس کو معطل کردیا گیا ہے اور یہ تمام پاکستان کے شہری تھے اور پاکستان سے ہی لائسنس حاصل کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پائلٹس گزشتہ کئی برس سے ویتنام میں کام کر رہے تھے۔

سی اے اے وی کے ایگزیکٹو نے کہا تھا کہ ہمیں پاکستانی سول ایوی ایشن حکام کی جانب سے جائزہ رپورٹ کا انتظار ہے جس میں طے ہوگا کہ آیا ان پائلٹس نے جعلی لائسنس حاصل کیا تھا یا نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ جن پائلٹس کے پاس مصدقہ لائسنس ہوگا انہیں دوبارہ کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024