اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر سی ڈی اے کو نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
وفاقی دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق نے ایک شہری چوہدری تنویر کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 میں مندر کی تعمیر کے لیے دی گئی زمین واپس لی جائے، مزید یہ کہ مندر کی تعمیر کے لیے تعمیراتی فنڈز بھی واپس لیے جائیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سید پور گاؤں میں پہلے سے مندر موجود ہے، حکومت اس کی تزئین و آرائش کرسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کیلئے گرانٹ کی منظوری دے دی
اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اقلیتوں کے مکمل حقوق ہیں، ان کا بھی خیال رکھنا ہے، ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ سی ڈی اے بتائے کہ کیا ایچ 9 میں مندر اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ ہے یا نہیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ ایچ 9 میں مندر کو دی گئی زمین دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کرایا جائے جبکہ مندر کی تعمیر پر حکم امتناع جاری کیا جائے، جس پر عدالت نے مندر کی تعمیر کو فوری روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع کی درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔
دوران سماعت عدالت میں درخواست گزار نے کہا کہ ضلعی عدالتی کرائے کی دکانوں میں قائم ہیں اور انتظامیہ مندر تعمیر کررہی ہے، اگر ہندو برادری کے لیے مندر کی تعمیر شروع کردی گئی تو کل دیگر اقلیتیں بھی ایسا مطالبہ کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ ایچ نائن سیکٹر میں حکومت نے مسجد کے لیے تو فنڈ کا اعلان نہیں کیا بلکہ مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کردیے۔
درخواست گزار نے کہا کہ حکومت بتائے کہ ایچ نائن کے ارد گرد کے سیکٹرز میں ہندو برادری کی کتنی آبادی موجود ہے۔
بعدا زاں عدالت نے مذکورہ معاملے میں سی ڈی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
خیال رہے کہ اس درخواست میں وزیراعظم کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری، سیکریٹری وزارت مذہبی امور اور سیکریٹری داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ چیئرمین سی ڈی اے، چیئرمین سی ڈی اے بورڈ اور چیئرمین یونین کونسل ایچ نائن کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر
دوسری جانب اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں گجرات کے رہائشی محمد عاکف نے مذکورہ مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے آئینی درخواست دائر کی، جس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری، سی ڈی اے، سیکریٹری داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا اور آئین کے تحت پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے جس میں اسلامی اصولوں سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے بائی لازمیں کسی مندر کی تعمیر کی کوئی شق موجود نہیں ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق اسلام آباد میں صرف 178 ہندو آباد ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہندوﺅں کی اپنی عبادگاہیں موجود ہیں ایسے میں ان کے لیے نئی عبادت گاہ کا قیام غیر ضروری ہے، ساتھ ہی یہ بھی مؤقف اپنایا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندو اپنی تعلیمات کا پرچار نہیں کر سکتے۔
درخواست کے مطابق صدر ایوب کے دور حکومت میں اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا گیا، پاکستان کے دارالحکومت میں مساجد تو تعمیر کی جا سکتی ہیں مگر آئین و قانون میں غیر مسلموں کے لیے کوئی نئی عبادت گاہ بنانے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں اگر مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی لاگت سے زمین فراہم کر دی گئی تو یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ وفاقی حکومت کا اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے لیے جگہ فراہم کرنے کا مراسلہ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔
ساتھ ہی یہ بھی استدعا کی کہ اسلامی جموریہ پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کو بھی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے۔
مندر کی تعمیر کا معاملہ
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی تھی، یہ منظوری وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کے لیے کی گئی درخواست کے بعد سامنے آئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں مندر اور شمشان گھاٹ بنانے کی ہدایت
اس سے قبل 23 جون کو ایچ 9 ایریا میں دارالحکومت کے پہلے مندر کی تعمیر شروع کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی کی جانب سے مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہندو پنچایت نے مذکورہ مندر کا نام شری کرشنا مندر رکھا ہے۔
یہ بات مدنظر رہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حکم پر 2017 میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کے ایچ 9/2 میں 20 ہزار اسکوائر فٹ کا پلاٹ ہندو پنچایت کو دیا گیا تھا۔
تاہم سائٹ میپ، سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اتھارٹیز سے دستاویزات کی منظوری سمیت دیگر رسمی کارروائیوں کے پورے ہونے میں تاخیر کی وجہ سے تعمیرات کام شروع نہیں ہوسکا تھا۔