• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کے بجٹ کو مسترد کردیا

شائع June 28, 2020 اپ ڈیٹ June 29, 2020
بلاول بھٹو نے متحدہ حزب اختلاف کی کانفرنس کا آغاز کیا—فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے متحدہ حزب اختلاف کی کانفرنس کا آغاز کیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے 21-2020 کے بجٹ پر کہا ہے کہ 'متحدہ حزب اختلاف نے اس بجٹ کو مسترد' کردیا۔

اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے پریس کانفرنس کے آغاز میں بلاول بھٹو نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشل پارٹی (اے این پی) اور بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل، قومی وطن پارٹی سمیت بعض آزاد امیدواروں نے مل کر بجٹ کو مسترد کردیا ہے۔

مزیدپڑھیں: 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلان

بلاول بھٹو نے کہا کہ حالیہ پیش کردہ بجٹ کے حوالے سے جوائنٹ اپوزیشن (متحدہ حزب اختلاف) قرارداد پیش کررہی ہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 2020 کے بجٹ نے موجودہ حکومت کے خلاف پورے پاکستان کو متحد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم اُمید کررہے تھے کہ موجودہ حالات میں وفاقی حکومت کا بجٹ عوام کے طبی مسائل کو حل کرے گا لیکن بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس مشکل صورتحال میں عوام کے ساتھ ظلم کیا گیا، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اس کی ایک مثال ہے، بجٹ میں کہتے رہے کہ پیٹرول کی قیمت کم کرکے عوام کو سہولت دیں گے لیکن اب پیٹرول کی قیمت سے زیادہ اس پر ٹیکس وصول کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2020: عوام کے لیے کیا اچھا رہا اور کیا بُرا؟

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'بجٹ کے بعد قومی اسمبلی میں ہماری تعداد میں اضافہ ہوا ہے، شہباز شریف نے بیمار ہونے کے باوجود وزیراعظم عمران خان کو پریشان کردیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اپنے اتحادیوں کو مشکل سے اکٹھا کررہے ہیں، اپوزیشن، حکومت کو مشکل وقت دے رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان ایک قومی بوجھ بن گئے ہیں، خواجہ آصف

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں وبا کا راج ہے، وبا ہزاروں جانیں لے چکی ہے، معیشت جو پہلے تباہ و برباد ہوچکی تھی، اس کی واپسی کے دروازے بھی وبا نے بند کردیے۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں توقع کی تھی عوام کو ریلیف دیا جائے لیکن حکومت نے مزید ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا۔

مزید پڑھیں: دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویز

خواجہ آصف نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان ناقابل برداشت ہوگا، وزیراعظم عمران خان ایک قومی بوجھ بن گئے ہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ وزیراعظم عمران سے جتنی جلد چھٹکارہ حاصل کیا جائے اتنا بہتر ہے تاکہ بچے کچے پاکستان کو محفوظ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بجٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، متحدہ اپوزیشن جلد مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل تشکیل دے گی۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی نمائندگی کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ بجٹ کے خلاف عوام کی رائے کو جمع کیا جائے گا اور ہر محاذ پر ان کا مقدمہ لڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے میں اپوزیشن کے اراکین نے قومی اسمبلی میں بجٹ کے خلاف جس طرح حصہ لیا، انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت کی اپنی صفوں میں ہلچل اس بات کی جانب نشاندہی ہے کہ ان کا آخری وقت آگیا ہے، ریاستی اداروں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

حکومت بجٹ کے بعد مزید فیل ہوگئی، میاں اسلم

جماعت اسلامی کے رہنما میاں اسلم نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے عوام کو اندھیرے میں رکھا، بجٹ محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہے، جتنے بھی اعداد وشمار دیے گئے وہ غیر حقیقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر بجٹ بدترین ہے، اسلام آباد میں موجود سرکاری ملازمین جو پورے پاکستان کو چلاتے ہیں، ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بجٹ 21-2020: حکومت نے کراچی کے 3 ہسپتالوں کیلئے 14 ارب روپے مختص کردیے

میاں اسلم نے کہا کہ حکومت پہلے بھی فیل تھی، بجٹ کے بعد مزید فیل ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مافیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام حکومت خود مافیا کا حصہ بن گئی۔

اس سے برا وقت ملک پر نہیں آسکتا، اکرم درانی

علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے بھی کانفرنس میں مختصر گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے برا وقت ملک پر نہیں آسکتا، مشترکہ کوششیں کرکے اس ظالمانہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

اکرم خان درانی نے کہا کہ اپوزیشن متحد ہے اور اس سے برا وقت آ نہیں سکتا، میں نے اپنی زندگی میں ملک کے اتنے برے حالات نہیں دیکھے۔

واضح رہے کہ 12 جون کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا تھا، دفاعی بجٹ میں تقریباً 62 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا تھا تاہم تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا تھا۔

کانفرنس کے دوران صحافیوں کو متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ قرار داد کا متن پیش کیا گیا جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔

قرار داد کا متن

1۔ عمران خان حکومت نے ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس کا دامن پاکستان کے عوام کے لیے کسی بھی خوش خبری یا بہتری کی نوید سے سراسر خالی ہے، گزشتہ کی طرح اس برس بھی حکومت کے پیش کردہ معاشی ومالیاتی اعدادوشمار ناقابل بھروسہ ہیں، اپوزیشن کی جانچ پڑتال اور چھان پھٹک کے نتیجے میں یہ حقیقت بڑی تیزی سے کھل کر سامنے آچکی ہے کہ حکومت نے کس چالاکی،عیاری اور سفاکی سے بجٹ میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کی ہے۔ ”کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا" مارکہ بجٹ کے بارے میں اس کی منظوری سے پہلے ہی عوام کے خدشات وتحفظات 100 فیصد درست ثابت ہورہے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ تاریخی ظالمانہ اضافے سے واضح ہوگیا ہے کہ سلسلہ وار تقریبا ہر ماہ ایک نیا حقیقی منی بجٹ عوام پر مسلط کیا جائے گا، آخر پی ٹی آئی حکومت ٹیکس بم کی مزید کتنی بارش کرکے ہم سب کی جان لینا چاہتی ہے؟

2۔ پاکستان سنگین ترین مالیاتی بحران سے گزررہا ہے، نااہل حکومت صرف دو سال کی مختصر مدت میں اس مقدار سے بھی کہیں زیادہ قرض لے چکی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی یا پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پانچ سال کی مدت میں لیا تھا، عمران خان حکومت نے اپنی حکومت کے دونوں برسوں میں تاریخی خسارہ دیا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی یا پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سے کسی ایک کی حکومت کے دور میں بھی کبھی اتنی بلند سطح پر نہیں گیا، یہ تاریخی خسارے اور قرض، مجموعی قومی شرح ترقی (جی ڈی پی) میں ڈالر اور روپے کے لحاظ سے ریکارڈ کمی نے حالات کی سنگینی بڑھا دی ہے اور قوم کے بچوں کے مستبل کو تباہی سے دوچار کردیا ہے، بے سمت موجودہ حکومت نے معیشت جس طرح تباہ کی ہے، دراصل موجودہ نااہل قیادت اور اس کے کرائے کے ماہرین نے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل گروی رکھ چھوڑا ہے۔

3۔ گزشتہ دو سال کے دوران عمران خان حکومت نے جی۔ڈی۔پی کی شرح ترقی 5.8 فیصد سے منفی (0.4) فیصد پر پہنچادی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس گزشتہ برس سے بھی کم جمع ہوا۔ عمران خان حکومت نے دو سال میں یہ کارنامہ دو بار انجام دیا ہے، روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی کے باوجود دو برس میں برآمدات میں کمی ہوئی، بیروزگاری دوگنا اور غربت کا سیلاب آچکا ہے، موجودہ حکومت نے شرح سود اور مہنگائی ظالمانہ انتہا پر پہنچا دی، شرح سود میں یہ اضافہ کرکے بیرون ملک نامعلوم سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایا گیا جنہوں نے پاکستانیوں سے اربوں روپے سمیٹ لیے، یہ سب ہمیں یاد رہے گا۔

4۔ گزشتہ برس بجٹ کے دوران عمران خان حکومت نے قوم سے یہ جھوٹ بولا تھا کہ بجٹ خسارہ 7.1 فیصد ہوا حالانکہ نظرثانی پر حقیقت میں یہ 9.1 فیصد نکلا، اس سال دعوی کیا گیا ہے کہ خسارہ 9.1 فیصد ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہے، عمران خان حکومت 27 فیصد زیادہ ٹیکس یا مزید ایک ہزار ارب روپے جمع کرنے کا دعوی کررہی ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب عمران خان حکومت منی بجٹس پیش کرے، ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ حکومت یہ کرنے جارہی ہے، لہذا موجودہ بجٹ محض ایک چال ہے۔

5۔ کورونا وبا کے باعث پاکستان، سنگین معاشی اور سماجی بحران سے دوچار ہے، ان خطرات کے مقابلے اور سفید پوش، غریب،نادار ومستحق افراد کو مدد فراہم کرنے، ان کی زندگی اور روزگار بچانے کے بجائے عمران خان حکومت بجٹ کو بھی اپنی تباہ کن اور عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی بے رحم ہلاکت خیز سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہے، حیرت انگیز طور پر عمران خان حکومت کے بجٹ میں اس حقیقت کو قطعی فراموش کیا گیا کہ دنیا ایک غیرمعمولی ہنگامی صورتحال سے گزر رہی ہے، عمران خان حکومت نے کورونا عالمی وبا کی حقیقت مکمل نظر انداز کی ہے۔

6۔ بجٹ میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کے لیے کوئی اضافی تحفظ فراہم نہیں کیاگیا جو اس وقت اپنی جان داؤ پر لگا کر انسانوں کی زندگیاں بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں تاکہ ہم اپنے اہلخانہ کے ساتھ محفوظ زندگی گزار سکیں، بجٹ میں نئے ہسپتالوں کی تعمیر، وینٹی لیٹرز یا آکسیجن سے متعلق کوئی اضافی رقم نہیں رکھی گئی، اس کے برعکس موجودہ حکومت کے دور کی روایت کے عین مطابق تمام دیگر چیزوں کی طرح آکسیجن کی بھی قلت پیدا ہوچکی ہے، عمران خان کی حکومت نے عوام کو آکسیجن ”مافیاز“ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اور کوئی عوام کو بچانے والا نہیں، عمران خان کی حکومت کے پاس صحت اور معیشت کی بحالی کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں، حکومت کے پاس صرف اخباری بیانات ہیں، کورونا کے نتیجے میں درپیش چیلنج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات سے فائدہ اٹھانے کی جھلک ”بجٹ“ میں دکھائی نہیں دے رہی، حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس تک ملک میں 1279 ہسپتال موجود تھے، 2028-2020 میں کوئی نیا ہسپتال اس فہرست میں شامل نہیں ہوا۔

7۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور اس کے نتیجے میں اختیارات کی منتقلی کے باوجود عمران خان حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)، قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) اور قومی مالیاتی کمشن (این ایف سی) جیسے مشاورت کے آئین کے تحت فراہم کردہ ذرائع کو استعمال نہیں کیا، اپنے نوٹیفیکیشن کے مطابق تشکیل کردہ قومی مالیاتی کمشن (این ایف سی) مکمل طورپر غیرقانونی ہے، صحت عامہ کے ڈھانچے کی تیاری کے لیے عالمی ادارہ صحت نے جو گزارشات کی تھیں، انہیں بھی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، صحت کے لیے جی ڈی پی میں وسائل بڑھانے کے بجائے عمران خان حکومت نے غیرقانونی اقدام اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی صوبوں کے لیے مدد پر کٹوتی کی چھری چلائی، اس سال صوبوں کے لیے مختص کردہ رقم 20 فیصد یا 500 ارب روپے ہے جو گزشتہ سال کے تخمینے سے بھی کم ہے، بجٹ میں تمام صوبوں کے لیے صحت کا پیکج رکھا جانا چاہیے تھا۔

8۔ ٹِڈّی دَل سے متعلق اقوام متحدہ کے خوراک وزراعت کے ادارے اور اپوزیشن کے باربار خبردار کرنے کے باوجود کہ اس حملے سے پاکستان کے جی ڈی پی کو 600 ارب روپے تک کا نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن وفاقی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اس عذاب سے نمٹنے کے لیے صرف 10 ارب روپے مختص کیے گئے، ایک لاکھ40 ہزار ایکڑ فصلیں پہلے ہی ٹڈی دل کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہیں اور اب ایشیاءاور افریقہ کے دیگر حصوں کو نقصان پہنچا رہی ہے، کیڑے مار سپرے کرنے والے جہازوں، ادویات اور ساز وسامان کی فراہمی وترسیل سے متعلق اپیلوں اور مطالبات کو پس پشت ڈال کر بجٹ میں مجرمانہ لاپرواہی برتی گئی ہے۔

9۔ قومی سطح پر قلت آب کا خطرہ پاکستان کے لیے ایک اور سنگین بحران کی صورت میں موجود ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخیرے خشک ہورہے ہیں اور سمندری پانی سے زمینوں کو خطرات لاحق ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تغیر نے مسائل کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ 2025 تک پاکستان میں قلت آب کی اقوام متحدہ کی وارننگ کے باوجود موجودہ حکومت نے آبی ذخائر اور پانی کو محفوظ بنانے کے لیے وسائل بڑھانے کے بجائے ان میں مزید کمی کردی ہے۔

10۔ عمران خان حکومت چھپا رہی ہے کہ اس نے عوام پر حالیہ پیٹرول بم ”پیٹرولیم لیوی“ کی مد میں پھینکا ہے تاکہ صوبوں کو اس مد میں جمع ہونے والے وسائل سے حصہ نہ دینا پڑے جس کا آئین نے حکم دے رکھا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف عوام اور صوبوں پر مزید وزن لاد دیاگیا ہے بلکہ یہ اقدام غیرقانونی بھی ہے۔

11۔ عمران خان حکومت نے کنسٹرکشن سیکٹر کے ذریعے منی لانڈرنگ کی اجازت دے کر اپنے حواریوں کے پیسے کو تحفظ دیا جنہوں نے کالے دھن کو سفید بنانے اور ٹیکس رعایتوں کے ذریعے پہلے ہی بے تحاشہ دولت سمیٹ لی ہے۔ عمران خان حکومت کے عوام کو پچاس لاکھ گھردینے کے دعوے اور وعدوںکی کھلی خلاف ورزی اور اس پر یوٹرن لیتے ہوئے کسی غریب کو چھت فراہم نہ ہوسکی۔

12۔ مالی تکالیف سے دوچار غریبوں کی مدد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ (بی۔آئی۔ایس۔پی) میں تین گنا اضافہ کرنے کے بجائے عمران خان حکومت نے سماجی تحفظ کے پروگرام میں 34 ارب کی کٹوتی کردی۔ غریب عوام کو دیاجانے والا ریلیف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی واحد گرانٹ ہے جو سال کے دوران رکھے جانے والے عمومی خرچ کے سوا اورکچھ بھی نہیں۔

13۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلی بار مہنگائی بالخصوص خوراک کی قیمتوں میں تاریخی اور دوہندسی اضافے کے باوجود عمران خان حکومت نے تنخواہ اور پینشن میں اضافہ نہیں کیا۔ ماضی کی تمام حکومتوں نے کسی نہ کسی حد تک اس ضمن میں لازما ریلیف فراہم کیا۔ جب عوام صحت وروزگار کے سب سے خوفناک دور سے گزر رہے ہیں ، ان کی سفید پوشی داو پر ہے، عالمی وبا اور دیگر مسائل میں گھرے عوام اور بزرگ شہریوں کو سنگ دلی اور سفاکی سے بھلا دیاگیا۔

14۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کم ازکم اجرت کو مہنگائی کے تناسب سے متعین نہیں کیاگیا جس سے غریب ترین طبقات، مزدور، دیہاڑی دار اور محنت کشوں پر اضافی وزن ڈال دیاگیا ہے۔

15۔ عمران خان حکومت کورونا عالمی وبا کے آنے سے پہلے کی اپنی ”بے مثال“ کارکردگی کا خوب ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے جبکہ اس کے اپنے پیش کردہ اعدادوشمار ان بلند وبانگ دعوں کے برعکس تصویر دکھا رہے ہیں۔ شرح سود یا پالیسی ریٹ میں انتہائی زیادہ اضافہ کی حکمت عملی، روپے کی قدر میں اچانک اور بڑی مقدار میں کمی کے علاوہ نیب کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ڈرانے، دھمکانے اور انتقامی کارروائیوں کا نتیجہ معیشت کے جمود کی صورت برآمد ہوا اور گرتی معیشت اور اس کے جمود نے ملک کو تباہی ولاچاری کاشکار کردیا۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں خوراک کی قیمتوں میں ایک سے 25 فیصد تک کا ہوشربا اضافہ ہوا۔ عمران خان حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور لاکھوں عوام غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جاچکے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت تک ہوچکا تھا جب ملک میں کسی نے کورونا کا نام ونشان بھی نہیں سنا تھا۔

16۔ عمران خان حکومت نے بجٹ سازی کی مشاورت کے دوران تمام پارلیمانی طریقہ ہائے کار کو نظر انداز کیا۔ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کو جو امدادی رقم دی گئی ہے، اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں، کوئی حساب کتاب دستیاب نہیں۔ تمام اخراجات کی پارلیمان سے منظوری لینے کے باربارکے تقاضوں کے باوجود بیرون ملک سے آنے والی امداد سے متعلق شفافیت موجود نہیں اور نہ نگرانی کا کوئی نظام ہی دستیاب ہے۔ کورونا پر پارلیمانی کمیٹی کا آخری ہنگامی اجلاس 27 اپریل 2020 کو ہوا تھا۔ جسے منعقد ہوئے اب دو ماہ ہوچکے ہیں۔ بحران کے اس دور میں پارلیمانی کمیٹیوں کا کردار نظرانداز کردیاگیا ہے حالانکہ اس وقت اتحاد، اتفاق اور شفافیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

17۔ پی ٹی آئی حکومت میں جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کی حالت بھی انتہائی دگرگوں ہے۔ باربارکی یاد دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے صحافی برادری کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا حالانکہ یہ شعبہ کورونا وبا کے آنے سے سب سے بری طرح متاثر ہونے والے شعبہ جات میں سے ایک ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے پروپیگنڈے اور جھوٹ کے فروغ کے لیےاشتہارات کو ہتھیاربنایا۔ اس حکومتی حکمت عملی کے نتیجے میں یہ شعبہ پہلے ہی شدید مالی بحران سے دوچار تھا ۔ مالی بحران کے باعث بڑے پیمانے پر میڈیا کے محنت کش اور ملازمین بیروزگار ہوچکے تھے اورتنخواہوں میں کٹوتیوں کے عذاب کا سامنا کررہے تھے۔ پی ٹی آئی نیب ، دھمکیوں اور دھونس کے دیگر طریقوں کو استعمال کرکے پاکستان میں میڈیا کا گلا گھونٹتی ہے اور پھر سوشل میڈیا پر ہجوم کے ذریعے قتل کرنے کے انداز کواپناتے ہوئے ریاست کے چوتھے ستون کو بدنام کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے لوگوں کو سیاسی مخالفین پر تشدد کے لیے اکسایاجاتا ہے۔ جنگ گروپ کے میرشکیل الرحمن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت کو پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کی کھلی فضا سے کتنی چڑ اور نفرت ہے۔

18۔ منتقم مزاج موجودہ حکومت نیب کو ہتھیار بنا کر حزب اختلاف کو خاموش کرانا اور دبانا چاہتی ہے۔ سابق قائد حزب اختلاف جناب سید خورشید شاہ اور پنجاب اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف جناب حمزہ شہبازشریف اس حقیقت کی کھلی مثال ہیں۔ آج تک ان پر کوئی الزام نہیں لگ سکا۔ یہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے۔

19۔ اس سے قبل کہ ملک ان نااہلیوں، نالائقیوں اور حماقتوں کے ملبے تک ڈوب جائے، وطن عزیز اور عوام کو عمران خان حکومت کی نااہلی، غریب دشمنی، منتقم مزاجی اور فسطائی سوچ سے بچانا ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024