روس، طالبان کے بعد ٹرمپ نے بھی امریکی اخبار کی رپورٹ مسترد کردی
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کردی ہے کہ انہیں امریکی انٹلیجنس نے بریفنگ دی تھی کہ روسی فوجی انٹلیجنس نے طالبان سے منسلک عسکریت پسندوں کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کے قتل کے لیے خفیہ طور پر انعامات پیش کش کی تھی۔
نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کئی ماہ بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ روسی ملٹری انٹیلی جنس نے گزشتہ برس کامیاب حملوں کے بعد طالبان کو انعامات کی پیشکش کی تھی۔
اس حوالے سے ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کسی نے بھی روسیوں کے ذریعے افغانستان میں ہمارے فوجیوں پر حملوں کے بارے میں مجھے یا نائب صدر یا چیف آف اسٹاف کو بریفنگ نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ 'ہر کوئی امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کر رہا ہے اور یہ کہ افغانستان میں ہم پر (امریکی فوجیوں) پر بہت حملے نہیں ہوئے ہیں'۔
ٹرمپ نے کہا کہ 'یہ ایک جعلی خبر ہے، نیو یارک ٹائمز کو اپنے ذرائع کا انکشاف کرنا ہوگا، وہ ذرائع کچھ نہیں، اس لیے وہ ذرائع کبھی سامنے آ بھی نہیں سکتے'۔
واضح رہے کہ اس سے قبل روس اور طالبان نے بھی امریکی اخبار کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔
واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں 'بے بنیاد اور من گھڑت' قرار دیا تھا۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'طالبان کے کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں اور امریکی اخبار کی رپورٹ طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔
علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ امریکی صدر یا نائب صدر کو ایسی کسی بھی خفیہ معلومات کے بارے میں بریفنگ نہیں دی گئی۔
اس ضمن میں پریس سیکریٹری کیلی میک میکنی نے کہا کہ نیو یارک ٹائمز نے غلطی سے امریکی صدر کا حوالہ دیا کہ انہیں اس معاملے پر آگاہ کیا گیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے کہا کہ 'اگر یہ رپورٹ درست ہے تو کمانڈر ان چیف اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی حفاظت اور روس کے ساتھ کھڑے ہونے میں ان کی ناکامی کے بارے میں واقعی چونکا دینے والا انکشاف ہے۔
مزیدپڑھیں: روس، طالبان نے امریکی اخبار کا دعویٰ مسترد کردیا
ٹرمپ نے جوبائیڈن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ روس اور سابق صدر براک اوباما اپنے دور میں ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'لیکن براک اوباما نے یوکرین سے کریمیا کے یکطرفہ الحاق کے معاملے میں روس کو گروف آف ایٹ سے بے دخل کردیا، جس پر شدید تنقید کی گئی تھی'۔
واضح رہے کہ تقریباً 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکا، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجو گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔
رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
امریکی عہدیداران اور نیٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار 600 کے قریب ہے۔