امریکا نے ہانگ کانگ کے معاملے پر چینی عہدیداروں پر ویزا پابندی عائد کردی
امریکا نے ہانگ کانگ کی 'آزادی اور خودمختاری' پر قدغن لگانے کے الزام میں چین کے عہدیداروں پر ویزا کی پابندیاں عائد کردیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری مائیک پومپیو نے بیان میں کہا کہ 'میں موجودہ اور سابق چینی حکام پر ویزا پابندیوں کا اعلان کر رہا ہوں جنہوں نے ہانگ کانگ کی خودمختاری کو نظر انداز کیا، جو چین اور برطانیہ کے مابین 1984 کے معاہدے میں درج تھا'۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ 'چین نے ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی پامالی کی اور آزادی کے بنیادی حق کو تسلیم نہیں کیا'۔
مزید پڑھیں: امریکا کی چین کو ہانگ کانگ پر قانون سازی کے معاملے پر دھمکی
بیان کے مطابق پابندیوں کی زد میں آنے والے چینی عہدیداروں کے اہلخانہ پر بھی ویزا پابندیوں کا اطلاق ہوگا۔
امریکا اور چین کےدرمیان ہانگ کانگ کا معاملہ نئی کشیدگی کا باعث بن گیا ہے۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہانگ کانگ کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کے چین کے مجوزہ سیکیورٹی قانون پر بیجنگ کو سزا دینے کا وعدہ کیا تھا۔
اس کے ردعمل میں چین نے کہا کہ امریکی فیصلہ ایک 'غلطی' ہے جسے واپس لیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کی پارلیمنٹ نے ہانگ کانگ نیشنل سیکیورٹی بل منظور کرلیا
واضح رہے کہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی اتوار سے شروع ہونے والے اجلاس میں نئے قانون پر تبادلہ خیال کرے گی۔
چین نے سیکیورٹی قانون کی منظوری دی تھی جس کے مطابق ہانگ کانگ میں بیجنگ کے اختیارات کو نقصان پہنچانا جرم ہوگا اور چین مذکورہ علاقے میں اپنی سیکیورٹی ایجنسیاں فعال کرسکے گا۔
چین کے مجوزہ قانون کے خلاف ہانگ کانگ مظاہروں کی ایک نئی لہر نے جنم لیا تھا۔
مائیک پومپیو نے امریکی ویزا پابندیوں کی زد میں آنے والے چینی عہدیداروں کے نام نہیں بتائے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی سینیٹ کے حالیہ ووٹ کے بعد ہانگ کانگ کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے والے افراد اور ان کے ساتھ کاروبار کرنے والے بینکوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔
امریکی فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں، چین
اس اقدام کے جواب میں واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے کہا کہ وہ 'امریکا کے غلط فیصلوں کی پوری شدت سے مخالفت کرتے ہیں'۔
مزید پڑھیں: چین نے ہانگ کانگ کے معاملے پر برطانیہ کو ’جوابی ردعمل‘ سے خبردار کردیا
ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں سفارتخانے نے مزید کہا کہ 'ہم امریکا سے فوری طور پر اپنا غلط فیصلہ واپس لینے اور چین کے داخلی معاملات میں مداخلت بند کرنے کی درخواست کرتے ہیں'۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے احتجاج کرنے والوں کے حق میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس سے ہانگ کانگ کو دنیا کی بڑی معیشت سے تجارت کی اجازت دی گئی تھی۔
برطانیہ نے چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ پر ردعمل دیتے ہوئے ہانگ ہانگ کے شہریوں کو شہریت دینے کا عندیہ دیا تھا۔
چین نے جواب میں برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ ہانگ کانگ میں مداخلت کی صورت میں اسے مناسب ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا اور برطانیہ کی معاملے پر تنقید سے چین مشتعل نظر آتا ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ قانون کے نفاذ سے نیم خود مختار ہانگ کانگ کی محدود آزادی ختم ہوجائے گی۔
امریکا نے چین کی جانب سے ہانگ کانگ کی خود مختاری کے خاتمے کے فیصلے پر دھمکی دی تھی کہ خصوصی تجارتی حیثیت ختم کردی جائے گی۔
مزیدپڑھیں: چین کا مجوزہ قانون: تائیوان کا ہانگ کانگ کے لوگوں کو 'ضروری مدد' فراہم کرنے کا اعلان
خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کردیا تھا۔
ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہوگئے تھے۔
شدید احتجاج کے بعد ہانگ کانگ کے شہریوں کو ٹرائل کے لیے چین بھیجنے کی اجازت دینے والے قانون کو واپس لے لیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا جس میں حقوق کے لیے ووٹنگ کرانے اور پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے شامل تھے۔