• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اسلام آباد ہائیکورٹ: سنتھیا رچی کے ویزے پر وزارت داخلہ سے وضاحت طلب

شائع June 27, 2020 اپ ڈیٹ June 28, 2020
مجاز افسر عدالت کو یہ بھی بتائے کہ غیر ملکی شہری کو کن شرائط و ضوابط پر ویزا جاری کیا گیا —فائل فوٹو: فیس بک
مجاز افسر عدالت کو یہ بھی بتائے کہ غیر ملکی شہری کو کن شرائط و ضوابط پر ویزا جاری کیا گیا —فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے ویزا کی شرائط و ضوابط کے بارے میں وزارت داخلہ سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ کیا انہیں سیاسی بیانات دینے کا حق ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ایکٹوسٹ کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر وضاحت طلب کی۔

درخواست گزار چوہدری افتخار احمد نے اپنی درخوات میں مؤقف اختیار کیا کہ سنتھیا رچی ایک غیر ملکی شہری ہیں اور پاکستان میں بغیر مناسب ویزے کے مقیم ہیں، انہیں ڈی پورٹ (ملک بدر) کیا جائے۔

اس حوالے سے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ امریکی بلاگر کے ویزے کی مدت اختتام پذیر ہوچکی ہے اور ابھی تک متعلقہ ادارے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہیں کررہے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا ایف آئی اے کو سنتھیا رچی کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم

درخواست گزار کے مطابق سنتھیا رچی رجسٹرڈ ووٹر نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت اور تبصرے کرنے کی اجازت اور سہولت فراہم کی گئی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ انہیں ملک کی سیاسی قیادت کو جھوٹے بیانات اور الزامات کے ذریعے ملک کے تشخص کو داغدار کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سنتھیا رچی کی سرگرمیاں اس ویزے کی شرائط و ضوابط کے خلاف ہیں جو انہیں جاری کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور پولیس سمیت متعلقہ حکام قانون کے مطابق کارروائی کرنے سے انکاری ہیں۔

مزید پڑھیں: سنتھیا رچی کیخلاف پاکستان پیپلزپارٹی کی درخواست پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری

بعد ازاں عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ ایک مجاز نمائندے کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے نامزد کریں جو اس بات کی وضاحت کرے کہ کیا سنتھیا رچی کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی ہے اور اگر ایسا ہے تو قانون کے مطابق کیا کارروائی عمل میں لانی چاہیئے۔

مزید یہ کہ مجاز افسر عدالت کو یہ بھی بتائے کہ غیر ملکی شہری کو کن شرائط و ضوابط پر ویزا جاری کیا گیا کہ جس سے درخواست گزار کے الزام کے مطابق انہیں سیاسی نوعیت کے بیانات دینے کی اجازت ملی۔

قبل ازیں سنتھیا رچی کی جانب سے یہ الزام سامنے آیا تھا کہ پیپلز پارٹی انہی ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

10 جون کو ایک ٹوئٹ میں امریکی بلاگر کا کہنا تھا کہ ’چونکہ پی پی پی مجھے ڈی پورٹ کروانے کی کوشش کررہی ہے اس لیے میں حکومت پاکستان سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے ای سی ایل میں ڈال دیں تا کہ میں یہ لڑائی لڑ سکوں، میں کہیں نہیں جارہی، میری تعطیلات انتظار کرسکتی ہیں، چلو! ‘۔

یہ بھی پڑھیں: سنتھیا رچی کا پیپلزپارٹی پر ڈی پورٹ کرنے کی کوششوں کا الزام

کچھ ہی گھنٹوں بعد انہوں نے 8 جون 2020 کی ایک خفیہ دستاویز بھی شیئر کی جس میں ان کی متعلقہ حکام اور عدالتوں میں پیشی کو یقینی بنانے کے لیے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی ہدایات تھیں، ساتھ ہی انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا: ’خفیہ، اگر سچ ہے تو مجھے اب ویزے میں توسیع کی درخواست دینے کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘۔

اس سے قبل رہنما پی پی پی رحمٰن ملک نے امریکی بلاگ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور وزارت داخلہ، اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر سے سنتھیا رچی کو پاکستان میں فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سنتھیا رچی تنازع

خیال رہے کہ امریکی بلاگر سنتھیا رچی کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں لیکن گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک ’نامناسب‘ ٹوئٹ کے بعد ان کے پیپلز پارٹی سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔

پی پی پی رہنماؤں کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا جہاں سے حکام کو امریکی بلاگر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم جاری ہوا، انہوں نے اس کارروائی کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم وہ مسترد ہوگئی۔

دوسرا اور سب سے اہم معاملہ سنتھیا رچی کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر ریپ اور پی پی پی کے دور دیگر رہنماؤں پر دست درازی کرنے کا الزام عائد کیا جانا تھا۔

مذکورہ الزامات پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمٰن ملک کی جانب سے امریکی بلاگر کو ہتک عزت کے نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024