• KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سورج کو گرہن کیوں لگتا ہے اور کیا واقعی یہ نقصان دہ ہوتا ہے؟

شائع June 26, 2020
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 جون کو سورج گرہن کا نظارہ کیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 جون کو سورج گرہن کا نظارہ کیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

یہ روایت تو صدیوں سے چلتی آرہی ہے کہ جب بھی کوئی فلکیاتی موقع ہوتا ہے تو نجومی عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر ان کی توجہ اپنی طرف کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ جب میڈیا بھی مل جائے تو کام مزید آسان ہوجاتا ہے. ایسا ہی کچھ آج کل سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جیسے ہی 21 جون 2020 کے سورج گرہن کی تاریخ نزدیک آئی تو انہوں نے مشہور کردیا کہ دسمبر 2012 میں مایان کلینڈر کے اختتام پر جو دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی کی گئی تھی وہ دراصل 21 جون2020 تھی۔

21 جو2020 کو پاکستان میں حلقہ نما سورج گرہن دیکھا گیا جو کہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ گرہن کے سلسلوں کا آغاز تو اس وقت سے ہوگیا تھا جب چاند وجود میں آیا۔

آج ہم جانتے ہیں کہ چاند زمین کے اور زمین سورج کے گرد گردش کررہی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار میں اسی مقام پر تقریبا 29 دنوں میں واپس آجاتا ہے، یوں کہہ لیجیے کہ چاند ہر ماہ سورج اور زمین کے درمیان سے گزرتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر تو سال میں 12 یا 13 سورج اور چاند گرہن ہونے چاہئیں کیونکہ چاند زمین کے گرد ایک سال میں 12 یا 13 چکر لگاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

اس سوال کا جواب چاند کے مداری جھکاؤ (جسے فلکیاتی اصطلاح میں "اربیٹل اِنکلینیشن" بھی کہا جاتا ہے) میں ہے۔ قمری مدار زمین کے مدار کی سیدھ میں نہیں بلکہ تقریبا5 ڈگری جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے چاند کا مدار زمینی مدار کو صرف 'دو' مقامات پر ہی کاٹتا ہے جنہیں فلکیاتی اصطلاح میں "نوڈز" یعنی "مقام انقطع" کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چاند اپنی ابتدائی منازل میں یا مکمل چاند کی حالت میں ہونے کے ساتھ ساتھ ان مقامات پر یا ان کے قریب ہوگا تو اس وقت سورج، چاند اور زمین کے ایک سیدھ میں ہونے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن وقوع پذیر ہو لیکن ذرا ٹھہریے کیونکہ یہ مدار اتنا سادہ نہیں!

کائنات میں ہر چیز منظم تو ضرور ہے لیکن اگر اس کائنات کو باریکی سے دیکھا جائے تو ہر طرف بےترتیبی دیکھنے کو ملے گی جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں کسی بھی سیارے، ستارے یا چاند کا مدار مکمل دائرہ نہیں ہوتا بلکہ بیضوی شکل (یعنی انڈے کی شکل) کا ہوتا ہے، اسی وجہ سے اگر دوربین سے چاند کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ چاند اپنی چکر میں زمین سے دور یا قریب ہوتا رہتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جب سورج یا چاند گرہن ہو تو چاند زمین سے ٹھیک 3 لاکھ 80 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہو بلکہ چاند اگر گرہن کے وقت زمین سے دور ہوگا تو سورج کو مکمل ڈھانپ نہیں پائے گا، یہی وجہ ہے کہ ہمیں سورج گرہن کی مختلف اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔

21 جون 2020 کا سورج گرہن کیسا ہے؟

21 جون 2020 کو ہونے والا سورج گرہن حلقہ نما سورج گرہن ہے کیونکہ چاند کا زمین سے اس وقت فاصلہ تقریبا 3 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چاند کا کونی قطر آسمان میں سورج کے کونی قطر (اینگولر ڈائمیٹر) سے کم ہوگا، اس گرہن کا انتظار پاکستان میں مقیم فلکیاتی شدائیوں کو بے حد انتظار تھا کیونکہ1995 اور 1999 کے مکمل سورج گرہن کے بعد پاکستان میں2020 میں پہلی دفعہ حلقہ نما سورج گرہن دیکھا جائے گا اور سورج گرہن قدرت کے بہترین مناظر میں سے ایک ہے۔

اس بار کا حلقہ نما سورج گرہن پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق صبح 8 بج کر 35 منٹ پر شروع ہوا اور 9 بج کر 37 منٹ پر چاند نے سورج کو ڈھانپنا شروع کردیا اور 11 بج کر 30 منٹ پر گرہن کا عروج ہوا، یعنی سورج نے حلقے کی شکل اختیار کرلی اور پھر دوپہر ایک بج کر 32 منٹ تک سورج مکمل طور پر نمودار ہوا جبکہ گرہن کا اختتام 2 بج کر 43 منٹ پر ہوا.

سورج گرہن جنوبی چین کے کچھ علاقوں سے ہوتا ہوا بھارتی دارلحکومت دہلی کے قریب دہرادھن شہر کے اوپر سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوا، جہاں یہ سندھ کے مشہور شہر سکھر اور لاڑکانہ سے گزتا ہوا آگے گیا، یہ سورج گرہن شام سے ہوتا ہوا جنوبی افریقہ پہنچا اور وہیں اس کا اختتام ہوا۔

مکمل سورج گرہن

مکمل سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں آجائے لیکن کچھ اس طرح کہ چاند کا زمین سے فاصلہ اتنا ہو کہ وہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لے، مکمل سورج گرہن میں چاند سورج کا 'روشن کرّہ' یعنی فوٹو سفئیر ڈھانپ لیتا ہے لیکن سورج کی فضا، جسے "کورونا" کہا جاتا ہے، نظر آنے لگتی ہے جو کہ ایک دلکش منظر ہوتا ہے کیونکہ روشن کرّے کی موجودگی میں کورونا کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کورونا ہی وہ جگہ ہے جہاں سورج کے دھماکے ہوتے ہیں اور پلازما سورج کے اطراف میں پھیل جاتا ہے۔ مکمل سورج گرہن میں سورج کو چاند کے مکمل ڈھانپنے کو ہی مثال بنا کر شمسی سائنسدان بھی جب تحقیق کے لیے سورج کی تصویر لیتے ہیں تو سورج کے روشن کرّے کو اسی طرح ڈھانپ کر اس کی فضا کی جانچ کرتے ہیں۔

حلقہ نما سورج گرہن

حلقہ نما سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں تو آجائے لیکن اپنے مدار کے اس مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی باشندوں کے لیے چاند مکمل طور پر سورج کے روشن کرے کو ڈھانپ نہ پائے، اس کے نتیجے میں سورج کا درمیانی حصّہ چھپ جاتا ہے جبکہ اطراف میں روشن حلقہ بن جاتا ہے۔\

اس حالت کا عوام الناس میں 'رنگ آف فائر' یعنی آگ کے شعلے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے حالانکہ آج ہمیں معلوم ہے کہ سورج پر آگ موجود ہی نہیں!

جزوی سورج گرہن

جزوی سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب پورا چاند زمین اور سورج کے مدار کی سیدھ میں نہ ہو، اس وجہ سے جب چاند سورج کے سامنے سے گزرتا ہے تو چاند کا کچھ حصّہ ہی سورج کو ڈھانپتا ہے۔

کیا سورج گرہن روئے ارض پر موجود جانداروں پر اثرانداز ہوتا ہے؟

سورج گرہن مکمل طور پر قدرتی عمل ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب سورج اور زمین کے درمیان چاند آجائے جبکہ چاند کا سال کے کچھ مہینوں میں سورج اور زمین کے درمیان آجانا کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ آج سائنسدانوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کب اور کیوں فلکی جسم کہاں ہوگا۔

اکثر لوگوں کا جو سائنسی علم سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں ان کا کہنا ہے کہ گرہن کے وقت سورج سے کچھ خاص طرح کی شعاعیں نکلتی ہیں جو انسانوں پر اثرانداز ہوکر بہت سے حادثات کا سبب بنتی ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے جدید سائنس کے اس دور میں رہتے ہوئے بھی ان شعاعوں کا نام نہیں بتایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی شعاعیں موجود نہیں جو انسانوں پر اثرانداز ہوں بلکہ سائنسدان اور آنکھوں کے ماہرین گرہن کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے سے اس لئے منہ کرتے ہیں کیوں گرہن کے وقت جب چاند سورج کو مکمل ڈھانپ لیتا ہے تو اس وقت سورج کی روشنی مدھم ہوجاتی ہے لیکن جیسے ہی چاند سورج کے سامنے سے ہٹنے لگتا ہے تو سورج کی تیز روشنی آنکھوں میں اچانک پڑنے سے آنکھوں کا پردہ یعنی ریٹنا جل سکتا ہے جس سے آپ کی بینائی ہمیشہ کے لیے جاسکتی ہے وہ بھی بنا تکلیف کے (کیونکہ ریٹنا میں درد محسوس کرنے والے خلیے موجود نہیں ہوتے)۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا صرف گرہن کے وقت ہی یہ تیز روشنی نکلتی ہے؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے، سورج کو کبھی بھی برہنہ آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہہے اور اگر آپ سورج گرہن کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں تو ایکس رے کا پیپر یا عام سن گلاسز استعمال کرنے کے بجائے صرف سرٹیفائیڈ شمسی عینکوں یا13 اور 14 نمبر ویلڈنگ گلاس کا استعمال کریں۔

یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ حاملہ عورت کو اگر سورج یا چاند گرہن کے وقت لوہے کی کسی بھی تیز چیز، جس میں کینچی، چھری، وغیرہ شامل ہیں کا استعمال کرے تو پیدا ہونے والا بچہ معذور پیدا ہوگا، اس بات میں رتی بھر بھی حقیقت نہیں ہے۔

اس چیز کو غلط ثابت کرنے کے لیے کبھی کسی عام انسان نے تجربہ بھی نہیں کیا کیونکہ ہر کسی کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں لیکن سائنسدانوں نے یہ سب تجربات جانوروں سے لے کر انسانوں تک کیے ہوئے ہیں، معذور بچے کا پیدا ہونا صرف ایک اتفاق یا کسی اور جینیاتی بیماری کا نتیجہ ہو سکتا ہے جو کہ ماں کو حمل کی حالت میں ساسوں/ماؤں کی جانب سے شدید گھبراہٹ کا شکار کرنے کے نتیجے میں 'ہارمونز کا توازن' خراب ہونے سے ہوسکتا ہے لیکن ایک فلکیاتی عمل کا انسانی زندگی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمارے پاس دوربین نہیں ہے، شمسی عینک بھی نہیں اور نہ ہی ویلڈنگ گلاس، سورج گرہن کیسے دیکھیں؟

پاکستان میں فلکیات کا شوق رکھنے والوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ پاکستان میں فلکیاتی سامان جس میں دوربینیں، شمسی عینکیں وغیرہ شامل ہیں، بہت آسانی سے نہیں ملتیں بلکہ انہیں امریکا یا چین سے منگوانا پڑتا ہے جو کہ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ ایئرپورٹس پر سیکورٹی عملے کے ساتھ ہونے والی خواری بھی ساتھ لاتی ہیں، اسی وجہ سے پاکستان میں کچھ ہزار لوگوں کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس فلکیات کا سامان نہیں لیکن وہ اس کا شوق رکھتے ہیں۔

ان شوق رکھنے والوں کے لیے بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو وہ حاصل کرکے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور سورج گرہن با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔

سورج گرہن پروجیکٹر

اگر گرہن کی تاریخ نزدیک آگئی اور آپ کے پاس شمسی عینکیں نہیں ہے تو فکر مند ہونے کی کوئی بات نہیں کیونکہ آپ گھر میں 'سورج گرہن پروجیکٹر' بنا سکتے ہیں، اس کے لیے آپ کو ایک اعدد بڑا ڈبا، ایک عدد چھوٹا الومینیم کا کاغذ (آپ کوئی بھی چاکلیٹ کھائیں اور اس کا غلاف الومینیم کا کاغذ ہوگا) اور ایک عدد سفید کاغذ۔ ڈبا لمبائی میں زیادہ ہونا چاہیے تاکہ سورج کی تصویر بڑی اور واضح ہو، دبے کے ایک طرف دو بڑے سوراخ کریں، ایک سوراخ ڈبے کے اندر کی سورج کی تصویر دیکھنے کے لیے ہوگا اور دوسرے سوراخ پر الومینیم کا کاغذ لگائیں، ڈے کے اندر پچھلی طرف ایک سفید کاغذ لگا دیں تاکہ سورج کی تصویر واضح نظر آئے۔

اب ایک عدد سوئی لے کر ان الومینیم کے کاغذ میں تقریبا 2 ملی میٹر بڑا سوراخ کر لیں، ہوگیا آپ کا سورج گرہن پروجیکٹر تیار، اب ڈبے کو سورج کی طرف کریں اور ڈبے کے اندر دیکھنے والے سوراخ سے جھانکیں اور آپ کو سفید کاغذ پر سفید دائرہ دکھائی دے گا، جی ہاں وہ ہمارا اپنا سورج ہے!

گھر کر برتنوں سے سورج گرہن دیکھیں (ڈانٹ پڑنے پر ذمہ دار آپ خود)

اگر آپ کو کوشش کرنے کے باوجود الومینیم کا کاغذ بھی نہیں ملا اور نہ شمسی عینکیں ملیں اور آپ کو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے اس گرہن کے لیے انتظار زندگی بھر انتظار ہی بن کر رہ جائے گا (کیونکہ جون کے مہینے میں حلقہ نما سورج گرہن زمین پر اسی مقام پر 300 سالوں میں ایک دفعہ آتا ہے) تو ایک آخری کوشش کریں اور گھر کے باورچی خانے میں مذکورہ تصویر میں دکھائی گئی 'چھلنی' جیسی چھلنی ڈھونڈیں اور پہنچ جائیں گرہن دیکھنے! یوں سمجھیں کہ اس کا ہر سوراخ ایک 'سورج گرہن پروجیکٹر' ہے اور ہر سوراخ سفید کاغذ پر سورج بنائے گا اور جب سورج کو گرہن لگے گا تو آپ کو اس چھلنی سے بنی سورج کی تصویروں میں گرہن زدہ سورج نظر آئے گا۔

یوں آپ اپنے گھر کی چیزوں سے سورج گرہن باحفاظت دیکھ سکتے ہیں،گرہن دیکھنے کے بعد عین ممکن ہے کہ آپ کو اپنی امی باورچی خانے سے چھلنی غائب کرنے پر ڈانٹ بھی دیں۔

اپنی انگلیوں سے سورج گرہن دیکھیں

اگر آپ کے گھر میں چھلنی بھی موجود نہیں تو مجھے امید ہے کہ آپ کے پاس اپنی انگلیاں موجود ہوں گی، آپ اپنی انگلیوں کو کراس کرکے ان کے بیچ خلا سے سورج کا 'سورج گرہن پروجیکٹر' بنا سکتے ہیں جو اور آپ کی انگلیاں چھلنی کا کام ہی کریں گی۔

آخر میں یہی کہوں گا کہ سورج یا چاند گرہن کے بارے میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کی باتوں پر کان نہ دھریں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اور اپنے بچوں کو بھی گھر میں سورج گرہن پروجیکٹر یا پھر دوربین (فلٹر کے ساتھ) کے ذریعے سورج اور چاند گرہن دکھانے کی کوشش کریں، کیونکہ جب تک پاکستان میں علم عام نہیں ہوگا، نجومی اور غیر سائنسی لوگ اسی طرح کی باتیں عوام میں پھیلاتے رہیں گے۔

ریفرنس: تمام مواد timeanddate.com سے لیا گیا ہے.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024