پاکستان میں سیاحت کی بحالی کا فیصلہ ٹھیک ہے؟
گلگت بلتستان کے ناراض وزیرِ اعلیٰ حفیظ الرحمٰن نے تھرڈ پول سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، 'میں اپنی موجودگی میں اس عمل کی اجازت بالکل بھی نہیں دوں گا'۔ وہ دراصل وزیرِاعظم عمران خان کے اس حالیہ اعلان کے بارے میں بات کر رہے تھے جس میں انہوں نے سیاحت کھولنے کا ذکر کیا تھا اور خیبرپختونخوا اور اس تناظر میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتوں کو کورونا وائرس کے وبائی مرض کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایس او پیز تیار کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کی روزی روٹی سیاحت سے وابستہ ہے ان کے لیے موسمِ گرما بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سیاحت کی مسلسل بندش سے بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔
چونکہ 9 مئی کو لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اموات میں اضافہ ہوا تھا اس لیے بہت سے لوگ پہلے سے زیادہ سخت لاک ڈاؤن کی توقع کر رہے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے سے 2 ہفتے قبل پنجاب کے محکمہ صحت نے صرف لاہور میں ہی وبائی پھیلاؤ کی شرح میں غیر معمولی اضافے کا انتباہ دیا تھا۔ محکمے نے خبردار کیا تھا کہ 'کسی بھی قصبے کا کوئی بھی کاروباری و رہائشی علاقہ بیماری کے خطرے سے محفوظ نہیں ہے'۔
مزید پڑھیے: سیاحت کھلنے کے امکانات، خدشات اور احتیاطی تدابیر
ان خدشات کے باوجود سیاحت کو مزید بحال کرنے کے اس فیصلے نے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس فیصلے کو 'بے وقوفی' اور 'پاگل پن' تک قرار دیا۔
مقامی افراد کو لاحق خطرہ
'وہ [وزیرِاعظم] بڑے پیمانے پر اموات کے ذمہ دار ہوں گے'۔ یہ کہنا تھا لاہور میں مقیم ماریہ عمر کا جو خواتین کو مالی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کوشاں ایک سماجی کاروباری (social entrepreneur) خاتون ہیں اور ہر سال پاکستان کے پہاڑی علاقوں کی سیر و سیاحت کرتی ہیں۔
'ہنزہ شاید ایک ایسی جگہ ہے جو کورونا سے محفوظ ہے لیکن وہ [وزیرِاعظم] سیاحت کا آغاز کرکے وہاں کے لوگوں کی بھی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں! میں پہاڑوں پر جانا چاہتی ہوں اور دیوسائی میں ایک ہفتہ کیمپنگ کرنا چاہتی ہوں، لیکن اپنے اور دیگر افراد کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ میں جہاں ہوں وہیں رہوں'۔ ماریہ عمر مزید کہتی ہیں کہ، 'وہ دوسروں کو تحفظ کا غلط احساس دلا رہے ہیں جس کا انجام بالکل بھی اچھا نہیں ہوگا'۔
اگرچہ حکومت کے کچھ نمائندے فوراً یورپ کے ان ممالک کی طرف اشارہ کریں گے جو سیاحتی مراکز دوبارہ کھول رہے ہیں جیسے روم کے کالسیم اور پیسا کا ترچھا مینار، لیکن یہاں یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ یہ ممالک اپنے 'انتہائی مراحل' سے نیچے آچکے ہیں جبکہ پاکستان ابھی بھی وہاں سے چند ہفتے دُور ہے۔
پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر اموات اور نئے کیسوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
حکومت کا دفاع
نیشنل ٹؤرازم ریکوری ایکشن کمیٹی کے چیئرمین آفتاب رانا نے وزیرِاعظم کے اعلان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ نہ تو اچانک کیا گیا اور نہ ہی غیر متوقع تھا بلکہ 'سوچ سمجھ کر' کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ، 'ہم گزشتہ 3 ماہ سے پوری باریک بینی سے سیاحت کی بحالی سے متعلق حکمت عملی مرتب دینے میں مصروف ہیں'۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کا مقصد سیاحوں کے ریلے کے لیے راستہ کھولنا نہیں بلکہ صحت سے متعلق سخت اقدامات کے ساتھ 'کنٹرول شدہ سیاحت' کی اجازت دینا ہے۔
مزید پڑھیے: ’میں 3، 4 لاکھ کما لیتی تھیں، لیکن کورونا کے بعد ایسا نہیں ہوسکے گا‘
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے مشاورتی عمل میں بڑے اور چھوٹے ہوٹل و ریسٹورینٹ مالکان، پورٹرز اور ٹرانسپورٹرز جیسے اسٹیک ہولڈرز کو شامل رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حتیٰ کہ دکانوں کے مالکان، ٹؤر آپریٹر اور گائیڈ بھی فیصلہ سازی کا حصہ رہے۔
خیبرپختونخوا کے سیکریٹری سیاحت خوشحال خان نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'جیسے ہی ہمیں ہاں کا اشارہ ملے گا تو ہم ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ایس او پیز نافذ العمل ہوں'۔
خوشحال خان نے کہا کہ مہمانوں کے کمروں اور ہوٹلوں کے ڈائننگ ہال کے ساتھ ساتھ ریسٹورینٹ میں بھی ہجوم کی گنجائش محدود کی جائے گی اور کسی کو بھی ماسک اور دستانے کے بغیر کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سماجی فاصلے اور جراثیم کشی سے متعلق رہنما اصول بھی مرتب کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قواعد پر عمل کرنے کے لیے سیاحوں کے لیے سائن پوسٹ، سائن بورڈ اور پمفلٹ ڈیزائن کیے جاچکے ہیں۔
تاہم گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ حفیظ الرحمٰن اب بھی اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔ کاغذ پر لکھے اور عملی دنیا کے معاملات میں فرق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، 'میں اس فیصلے کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں!'
انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے میرے عہدے کی مدت 24 جون کو ختم ہوجائے گی۔
پاکستان سیاحت کے عروج کی طرف گامزن
حفیظ الرحمٰن اور دیگر لوگوں نے سیاحتی کاروبار میں جس خوف کا اظہار کیا ہے وہ جائز ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات، دکانوں اور مساجد میں ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ماسک پہننا اور چہرہ ڈھانپنا تو دُور کی بات ہے لوگ تجارتی مراکز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ایس او پیز کی ان خلاف ورزیوں اور کیسوں و اموات کی بڑھتی تعداد کے باوجود حکومت پہاڑوں کی سیاحت دوبارہ کھولنے کے لیے بے چین نظر آتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ سے قبل بھی عمران خان پاکستان کے قدرتی نظاروں سے بھرپور شمالی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے خواہاں تھے، بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن کے اکتوبر 2019ء کا دورہ پاکستان کو ایک پُرکشش محفوظ سیاحتی منزل کی حیثیت سے دوبارہ عالمی نظروں میں لے آیا تھا۔
کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی سست روی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پروان چڑھتی پاکستانی سیاحت کی صنعت سے آمدن حاصل کرنے کی حکومتی امیدیں ناکام ہوگئی ہیں، اور حکومت والے وائرس کے خوف کے باعث آمدن اور ملازمتوں کو گنوانے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔
آفتاب رانا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سیاحت کھولنے کی اجازت کی ایک بڑی وجہ ان جگہوں پر سیر و تفریح کی غرض سے آنے والوں کی تعداد ہے۔ سال کے ان مہینوں میں سالانہ 15 لاکھ سے زائد مقامی سیاح گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں جبکہ 12 لاکھ سیاح سوات، پشاور، چترال، ایبٹ آباد وغیرہ جیسے سیاحتی مقامات گھومنے آتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ سیاحت سے وابستہ آمدن کے ذرائع ختم ہوجانے کے باعث ان علاقوں پر کس قدر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
تاہم گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ کے پاس مختلف دلیل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'جب دہشت گردوں نے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا تو ہم سیاحت کے بغیر ایک دہائی تک گزر بسر کرتے رہے۔ سیاحت کے بغیر ایک سال گزارنے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا‘۔ حفیظ الرحمٰن نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے 90 فیصد شہری عالمی وبا کے موجودہ حالات میں اپنے خطے میں سیاحوں کی آمد کے مخالف ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر حالات قابو سے باہر ہوگئے تو ہمارا نظام صحت زیادہ بوجھ برداشت نہیں کرپائے گا'۔
ناقص نظامِ صحت
نظامِ صحت کے انفرااسٹرکچر سے متعلق اعداد و شمار واقعی سنگین ہیں۔ اسکردو کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی میڈیکل افسر عمیمہ فاطمہ آصف کی 2017ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دیگر علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان کے نظامِ صحت میں ایمرجنسی اور ذہنی صحت کے شعبوں پر بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔
'ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ڈاکٹر اور آبادی کا تناسب خطرناک حد تک غیر متناسب ہے۔ یعنی یہاں ہر 4 ہزار ایک سو افراد کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے جبکہ قومی سطح پر ہر ایک ہزار 206 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے'۔ وہ پبلک ہیلتھ پاکستان جرنل میں شائع ہونے والے اپنےمطالعہ میں لکھتی ہیں کہ 'یہ شماریاتی ثبوت اس حقیقت کی گواہی دیتا ہیں کہ گلگت بلتستان میں نظامِ صحت کی حالت پریشان کن ہے'۔
مزید پڑھیے: جنوبی ایشیا میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار عروج پر کیسے پہنچا؟
انہوں نے مزید بتایا کہ 'بنیادی صحت مراکز، ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتال، تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال اور ڈسپنسریوں سے کمیونٹی کو نہ ہونے کے برابر فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ڈاکٹر شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتے ہیں، لہٰذا مٹھی بھر لیبارٹری تحقیقات کی جارہی ہیں۔ تربیت یافتہ لیبارٹری اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشنز اور تربیت یافتہ نرسنگ عملے کی شدید قلت ہے، اور بنیادی ادویات کا حصول بھی محال ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات کی محدود فراہمی کے باعث حادثات اور ایمرجنسی کے شعبوں کی حالت خراب ہے'۔
ٹؤر آپریٹر سیاحت دوبارہ کھلنے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون سیما الکریمی نے ’لیٹس ہوم‘ کے نام سے ائیر بی این بی طرز کا نیا کاروبار شروع کیا تھا، یہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو موجودہ حالات میں سیاحت کی بحالی کے خلاف ہیں۔
کاروبار کی شروعات کے بعد 2 سالوں تک کاروبار اچھا رہا۔ تاہم وہ شادیوں، ‘کورونا ویکیشن’ اور یوگا جیسی تفریحات کی بُکنگ نہیں لے رہی ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سیاح حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے رکھے گئے مقامی لوگ بیمار پڑجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں اپنے لوگوں کے بیمار ہونے کے بجائے صارفین اور کاروبار سے محروم ہونے کو ترجیح دوں گی'۔ وزیرِ اعلیٰ کی طرح ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں صحت کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔
مزید پڑھیے: لاک ڈاؤن میں چڑیا گھر کی سیر
مہمان نوازی کی صنعت میں کام کرنے والی افشاں بانو کا کہنا ہے کہ اگر سیاحت کو دوبارہ کھول بھی دیا گیا تو 'یہاں چھٹیاں گزارنے کا تجربہ ویسا نہیں ہوگا جیسا کہ وبائی مرض سے پہلے ہوتا تھا'۔ انہوں نے کہا کہ، 'روایتی استقبال کے طور پر ہم اب اپنے مہمانوں کو گھر کی بنی روٹی اور مکھن اور استقبالی مشروبات پیش نہیں کرسکیں گے'۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں ایک نیا طریقہ کار وضح کرنا ہوگا جس میں ‘انسانی رابطہ کم سے کم‘ ہو۔
افشاں بانو گلگت بلتستان میں گزشتہ ایک دہائی سے مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکشن منیجر کی حیثیت سے فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'پہلے تو سیاح ٹاؤن میں اردگرد آزادی سے گھومتے پھرتے تھے، مقامی لوگوں کے درختوں سے چیریز چنتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو ایک کپ چائے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا یا کسی کے گھر کا اندرونی حصہ بھی دکھایا جاتا تھا، اب یہ سب ممکن نہیں ہوگا لوگ بہت خوفزدہ ہیں'۔
یہی خوف اور خدشہ ہوٹل کے کاروبار میں بھی واضح ہے۔ 'مہمانوں کے ایئرپورٹ پر قدم رکھنے سے لے کر ہوٹل سے واپسی تک بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوگی۔ یہ سلسلہ تو پہلے سے ہی جاری ہے لیکن اگر کسی مہمان کو انفکشن ہوجائے تو کیا ہوگا؟ ہمیں ہی قصور وار ٹھہرا دیا جائے'۔
بانو کہتی ہیں کہ فی الوقت ان کے ہوٹل نے ریزرویشن روکی ہوئی ہیں اور گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے اجازت ملنے پر وہ بکنگ شروع کردیں گے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں