گرم موسم اشیا کی سطح پر کورونا وائرس کی زندگی مختصر کرتا ہے، تحقیق
نئے کورونا وائرس کی وبا سرد موسم میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور کچھ حلقوں بشمول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال تھا کہ درجہ حرارت گرم ہونے پر یہ بیماری فلو یا عام نزلہ زکام کی طرح غائب ہوجائے گی۔
مگر ایسا ہوا نہیں بلکہ پاکستان میں تو مئی اور جون کے گرم مہینوں میں اس کے کیسز کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
مگر گرم موسم اس وائرس پر ایک اثر ضرور مرتب ہوسکتا ہے اور وہ ہے سطح پر اس کی زندگی مختصر ہونا۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جیسا آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سارس کوو 2 (کووڈ 19 کا باعث بننے والے وائرس کا آفیشل نام) متاثرہ فرد کے ناک یا منہ سے چھینک اور کھانسی کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات سے پھیلتا ہے، مگر یہ مختلف اشیا کی آلودہ سطح سے بھی صحت مند افراد میں منتقل ہوسکتا ہے۔
متاثرہ فرد کی ایک کھانسی سے 3 ہزار کے قریب ذرات خارج ہوسکتے ہیں جو قریبی اشیا کی سطح اور کپڑوں پر گرجاتے ہیں، بہت چھوٹے ذرات ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح کووڈ 19 کا مریض کھانسی یا چھینک کو ہاتھوں پر روکنے کے بعد دروازے کی ناب کو چھوتا ہے تو وہ دیگر کے لیے خطرہ بڑھتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں دریافت کیا گیا کہ مریض فضلے سے بھی وائرس کو خارج کرتے ہیں یعنی ٹوائلٹ جانے کے بعد ہاتھ اچھی طرح نہ دھونے پر وہ جس چیز کو چھوئیں گے وہ وائرس سے آلودہ ہوجائے گی۔
اب یہ تو واضح ہے کہ گرم موسم اسے پھیلنے سے روک نہیں سکتا مگر یہ اشیا کی سطح پر وائرس کو زیادہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے نہیں دیتا۔
جریدے فزکس آف فلوئیڈز میں شائع تحقیق میں مختلف اشیا کی سطح پر وائرس کے ناکارہ ہونے کے وقت کو دیکھا گیا۔
تحقیق کو دنیا بھر میں 6 شہروں میں کیا گیا اور مختلف موسمی حالات سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کونسے علاقے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے نظام تنفس سے خارج ہونے والے ذرات کے خشک ہونے کے عمل کو سمجھنے پر کام کررہے تھے کیونکہ کووڈ 19 ان ذرات سے ہی پھیلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منہ/ناک سے خارج ہونے والے ذرات کی چوڑی ایک انسانی بال جتنی بھی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ان اشیا میں وہ بھی شامل ہوتی ہیں جن کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جیسے دروازے کے ہینڈل یا ٹچ اسکرین۔
تحقیق کے دوران نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، میامی، سڈنی اور سنگاپور کے ڈیٹا کو دیکھا گیا اور وہاں کووڈ 19 کے کیز کی شرح کا موازنہ منہ سے خارج ذرات کے خشک ہونے کے وقت سے کیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ جن شہروں میں کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا وہاں ذرات کے خشک ہونے کا وقت زیادہ طویل تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ دیکھ کر کچھ حیران ہوئے کیونکہ ایسا نظر آتا ہے کہ باہر کا موسم اور کووڈ 19 کے کیسز کی شرح میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے، اس ذریعے سے کسی مخصوص شہر میں بیماری کے پھیلائو کی رفتار میں تیزی یا کمی کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق مرطوب یا نمی والے ماحول میں خشک آب و ہوا کے مقابلے میں مختلف اشیا کی سطح پر وائرس کی زندگی 5 گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے، جبکہ زیادہ درجہ حرارت وائرس کو زیادہ جلد ختم کرتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے سنگاپور اور نیویارک میں ذرات کے خشک ہونے کے وقت کا موازنہ کیا تو سنگاپور میں یہ وقت امریکی شہر کے مقابلے میں کم تھا، حالانکہ وہاں نمی (70 سے 80 فیصد) نیویارک (50 سے 60 فیصد) سے زیادہ تھی۔
تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ نمی کے موزوں سطح جیسے اسمارٹ فونز اسکرین، روئی اور لکڑی کو گلاس اور اسٹیل کی سطح کے مقابلے میں اکثر اوقات صاف کرنا چاہیے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مرطوب گرم موسم میں کووڈ 19 کے حوالے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مون سون کے دوران زیادہ نمی ذرات اور وائرس کو گھروں کے اندر زیادہ وقت تک زندہ رہنے میں مدد دے سکے گی، سنگاپور کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ وہاں روزانہ کیسز کی تعداد میں مئی کے آخر میں کچھ اضافہ ہوا، جس کی وجہ وہاں مون سون کی آمد تھی۔