پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی، وفاق اور پنجاب میں اپنی ہی حکومت پر برس پڑے
اسلام آباد: حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی اسمبلی میں اپنے ہی متعدد اراکین کی جانب سے وفاقی بجٹ میں زراعت اور مختلف منصوبوں کے لیے ناکافی فنڈز مختص کرنے، پیٹرول بحران اور وزرا کی 'غیر موجودگی' کے بارے میں شکایت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
ساتھ ہی ان اراکین نے انہوں نے مختلف امور پر حکومت پنجاب پر بھی تنقید کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ پر بحث کے ساتویں روز اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے راجن پور سے پی ٹی آئی کے رکن پارلیمنٹ سردار ریاض محمود مزاری اور ملاکنڈ سے جنید اکبر نے جنوبی علاقے میں امن وامان برقرار رکھنے میں ناکامی اور گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنے کے فیصلہ پر پنجاب حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
سردار ریاض محمود مزاری نے بجٹ میں تجویز کردہ جنوبی پنجاب صوبے کے لیے فنڈز مختص نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم تبدیلی کے لیے پُرامید تھے تاہم مایوسی پھیل چکی ہے کیونکہ نہ لوگوں کو ملازمت مل رہی ہے اور نہ ہی کوئی ترقی ہو رہی ہے‘۔
مزید پڑھیں: رہنماؤں کے اختلافات نے پی ٹی آئی کے سیاسی لوگوں کو باہر کردیا، فواد چوہدری
پی ٹی آئی کے قانون ساز نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پسماندہ علاقوں کی بہتری کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا تھا ’لیکن ایسا نہیں ہوا‘۔
راجن پور میں ‘امن و امان کی خراب صورتحال‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ وزیر اعظم کے سامنے بھی اٹھایا ہے تاہم ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیوں کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘۔
ساتھ ہی انہوں نے دعوٰی کیا کہ 20 سے 25 افراد کے ایک گروہ نے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں، جس میں کسانوں سے بھتہ خوری بھی شامل ہے، کے ذریعے سرائیکی علاقے میں لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً دو ہفتے قبل مجرموں نے کچھ پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا تھا جسے چھڑانے کے لیے پولیس کو اس کے ساتھیوں کو رہا کرنا پڑا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کارروائی کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ انہیں حکومت کی طرف سے کوئی تعاون نہیں مل رہا‘ جبکہ صوبے میں پہلے ہی 5 آئی جی (انسپکٹر جنرل) تبدیل کیے جاچکے ہیں تاہم معاملات میں بہتری نہیں آئی ہے۔
سردار ریاض محمود مزاری نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار ‘بے اختیار‘ ہیں کیونکہ وہ ایک شریف آدمی ہیں اور کوئی ان کی بات نہیں سنتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک سینئر مقامی رکن نے حال ہی میں اس علاقے میں امن وامان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے پارٹی چھوڑ دی تھی کیونکہ پولیس اس کی 60 چوری شدہ بھینسوں کو برآمد کرنے میں بھی ناکام رہی تھی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم (مقبوضہ کشمیر) پر آواز اٹھا رہے ہیں جبکہ علاقے کی صورتحال کشمیر سے بھی بدتر ہے، لوگوں کی عزت محفوظ نہیں ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی، اتحادی جماعتوں کا عوام کی خدمت کا مشترکہ ایجنڈا ہے،وزیر اعظم
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجرمان کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے، ‘ہماری (انٹیلیجنس) ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟، اگر پولیس آپریشن نہیں کرسکتی ہے تو پھر علاقے کو صاف کرنے کے لیے رینجرز یا فوج کو بھیجیں‘۔
ناراض قانون ساز نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں پیسے دے کر ریلوے میں ملازمت حاصل کرلی ہے۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے ایک اور رکن اسمبلی جنید اکبر نے صوبہ خیبرپختونخوا میں گندم کی کمی کی وجہ بننے والے پنجاب حکومت کے بین الصوبائی گندم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اس پابندی کے لیے حکومت پنجاب کی مذمت کرتا ہوں، اس طرح کے اقدامات سے صوبوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے‘۔
اس موقع پر جب اسپیکر اسد قیصر جن کا خود بھی تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، انہوں نے ایم این اے کو مطلع کیا کہ یہ پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو جنید اکبر نے جواب دیا کہ تب بھی ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے جنہوں نے ‘غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلہ‘ کیا تھا جس سے صوبوں کے درمیان تنازع پیدا ہوا۔
انہوں نے بھی پیٹرول کی قلت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ شدت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پیٹرول کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔
اس پر اسپیکر اسمبلی نے وزیر برائے پیٹرولیم عمر ایوب، جو ایوان میں موجود نہیں تھے، انہیں پیر تک ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی کمی کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
دریں اثنا وہاڑی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک اور قانون ساز اورنگزیب خان نے بجٹ بحث کے دوران وزرا کی ایوان میں غیر موجودگی پر احتجاج کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ کورم کی کمی کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں لیکن کرسی کی تکریم کی وجہ سے ایسا نہیں کررہے ہیں۔
انہوں نے گندم کی قیمت میں اضافے پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ گندم، کاشتکاروں سے زبردستی ایک ہزار 450 روپے کی قیمت پر خریدی جارہی ہے اور اسے مارکیٹ میں ایک ہزار 700 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری نہ کرنے کے دعوے پر یوٹرن
مزید برآں چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے غلام محمد لالی نے اپنے انتخابی حلقے میں صحت کی سہولیات کی کمی کی شکایت کی اور کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ضلعی ہسپتال تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے چند قانون سازوں نے اپنی تقاریر میں زیادہ تر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت پر تنقید کی اور انہوں نے وفاقی حکومت کو میگاسٹی کے منصوبوں کے لیے کم رقم مختص کرنے اور کے الیکٹرک کو صارفین کے ساتھ روا رکھنے جانے والے رویے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
نظم و ضبط کی کارروائی
اس موقع پر اسپیکر اسد قیصر نے اعلان کیا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل سمیت قانون سازوں کے خلاف تقاریر کے دوران ’غیر پارلیمانی، غیر مہذب اور بدنام کرنے والی‘ زبان استعمال کرنے پر کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ ان کے نوٹس میں آیا ہے کہ پیر کی کارروائی کے دوران عبد القادر پٹیل نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی ہے جس سے پارلیمنٹ کے وقار اور احترام کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان کے رکھوالے کی حیثیت سے اسمبلی کے قوانین کے مطابق قانون ساز کے خلاف کارروائی کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
ساتھ ہی وہ یہ بھی بولے کہ تقریر کی ویڈیو کلپ دیکھنے کے بعد وہ ایکشن لیں گے۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے اسپیکر کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تاہم مطالبہ کیا کہ صرف قادر پٹیل کو اکیلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ حکومتی اراکین کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے ایسی زبان استعمال کی تھی اور اپوزیشن کو بھڑکایا تھا۔
اسپیکر نے کہا کہ وہ حلف پر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ اراکین کی پارٹی سے وابستگی سے قطع نظر کارروائی کریں گے۔
بعد ازاں ایک موقع پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے وحید عالم کا مائیک آف کردیا جب انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی۔
بجٹ کا عمل
علاوہ ازیں اسپیکر نے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ بجٹ پر عام بحث جمعرات کو ختم کردی جائے گی، جمعہ اور ہفتہ کو مطالبات اور تحاریک کے لیے گرانٹ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ فنانس بل اتوار کو اٹھایا جائے گا اور اس کے بعد پیر کو ضمنی گرانٹس کی منظوری دی جائے گی۔