پی ٹی آئی اتحاد چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، وزیر اعلیٰ بلوچستان
کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اور صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی کا کہنا ہے کہ وفاقی پی ایس ڈی پی کے تحت بلوچستان کے منصوبوں میں کٹوتی پر تحفظات کے باوجود ان کی پارٹی نے وفاق میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی حمایت واپس لینے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بلوچستان ڈیلی نیوز پیپرز ایڈیٹرز کونسل کے وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’اتحادی جماعت کی حیثیت سے بلوچستان عوامی پارٹی نے تحریک انصاف کی زیرقیادت مخلوط حکومت کو چھوڑنے کے لیے ابھی تک کوئی فیصلہ یا کوئی اعلان نہیں کیا‘۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تحفظات متعلقہ وفاقی حکام کے سامنے پیش کردیئے گئے تھے جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھی ان سے واقف ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’ہم وفاقی پی ایس ڈی پی کے معاملے پر وفاقی حکومت سے بات کریں گے اور اس پر احتجاج بھی کریں گے‘۔
مزید پڑھیں: بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کا پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کوئی بھی وزارت یا دیگر فوائد حاصل نہیں کرنا چاہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بلوچستان کے منصوبوں کے ٹینڈرز ستمبر میں جاری کردیے جائیں گے اور وفاقی اور صوبائی عہدیداران ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے ماہانہ بنیادوں پر اجلاس بھی کریں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ جہاں تک این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے حصہ کا تعلق ہے تو اسے آئینی طور پر تحفظ فراہم کیا گیا تھا لہٰذا صوبے کو اوور ڈرافٹ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں تھی۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دکھائے جانے والے بڑے بجٹ خسارے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم پہلے ہی ایک منصوبہ تیار کرچکے ہیں کہ کس طرح اخراجات اور آمدنی کے درمیان خلا کو پُر کیا جائے‘۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے بلوچستان روایتی سیاست میں پھنس چکا ہے اور اصلاحات اور بنیادی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حکمرانی میں اصلاحات ترقی کی طرف گامزن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے فنڈز ضائع ہوئے جس نے ترقیاتی عمل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔
جام کمال علیانی نے کہا کہ 1997 میں شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبے اب تک مکمل نہیں ہوسکے جبکہ موجودہ حکومت نے 1997 سے 2017 کے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے 18 ارب روپے مختص کیے تھے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ماضی میں اُن منصوبوں پر کام ہوا تھا جس میں وزیر اعلیٰ یا وزرا دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ ’اگر وزیراعلیٰ اپنے حلقہ انتخاب سے باہر نہیں آئے تو صوبہ ترقی نہیں کرسکتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلی کا تعلق پورے صوبے سے ہوتا ہے اور اسے پورے صوبے کو دیکھنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اختر مینگل نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کو شامل کیا گیا اور یہ دو سال کے عرصے میں مکمل ہوجائیں گے۔
صدر بلوچستان عوامی پارٹی کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومت بلوچستان کے وسائل بڑھانے پر ساری توجہ دے رہی ہے اور اب تک ان اقدامات کی وجہ سے وسائل میں 25 ارب روپے تک کا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے بلوچستان کی آمدنی میں 45 ارب روپے اضافے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 محکموں میں اصلاحات جاری ہیں اور صوبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ زیادہ مؤثر بنایا گیا ہے، مزید یہ کہ محکمہ خزانہ نے 64 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے 9 ارب روپے سالانہ منافع ملے گا۔
انہوں نے مواصلات اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں کی ترقی کے دیگر منصوبوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بلوچستان بھر میں ایک ہزار 500 سیاحتی مقامات موجود ہیں جو مرکزی شاہراہوں سے منسلک ہوں گی۔
علاوہ ازیں بلوچستان ڈیلی نیوز پیپرز ایڈیٹر کونسل کے وفد نے وزیر اعلی کو اپنی شکایات اور پریشانیوں سے آگاہ کیا۔
اس پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ہر شکایت کو نوٹ کیا اور اشتہارات کے 25 فیصد کوٹے کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے سوشل میڈیا اور میڈیا سٹی کے لیے اراضی کی الاٹمنٹ کے لیے فنڈ مختص کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی جہاں اخبارات کے دفاتر کے لیے دفتر کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔