ڈیکسا میتھازون کونسی دوا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟
ایک ورم کش دوا ڈیکسا میتھازون کو ہسپتال میں زیرعلاج نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار مریضوں کے لیے علاج کے لیے سنگ میل طریقہ علاج قرار دیا جارہا ہے۔
برطانیہ میں ایک ٹرائل کے دوران اس دوا کو کووڈ 19 کے مریضوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے موثر دریافت کیا گیا اور وہاں اس کا فوری استعمال بھی شروع ہوگیا ہے۔
یہ دوا کونسی ہے؟
ڈیکسا میتھازون ایک اسٹیرائیڈ ہے، ایک ایسی دوا جو جسم میں ورم کش ہارمونز بنا کر ورم میں کمی لانے میں مدد دیتی ہے۔
یہ کیسسے کام کرتی ہے؟
یہ دوا جسم کے مدافعتی نظام کو سست کرنے کا کام کرتی ہے۔
کورونا وائرس کے نتیجے میں جب جسم اس سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ورم بڑھنے لگتا ہے۔
مزید پڑھیں : ملک میں ڈیکسامیتھازون کی عدم دستیابی کی اطلاعات، وزارت صحت کا نوٹس
مگر کئی بار مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے، کیونکہ یہ جسم کے صحت مند خلیات کو ہی ہدف بنانے لگتا ہے۔
ڈیکسا میتھازون اس اثر کو پرسکون کرتی ہے۔
یہ صرف ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو پہلے ہی ہسپتال میں زیرعلاج ہوں اور آکسیجن یا مکینیکل وینٹی لیٹر پر ہوں، یعنی بہت زیادہ بیمار افراد کے لیے اس کا استعمال درست قرار دیا گیا ہے۔
برطانوی محققین نے دریافت کیا کہ یہ کورونا وائرس سے معتدل حد تک بیمار افراد پر اثر نہیں کرتی کیونکہ اس موقع پر مدافعتی نظام کو دبانا مددگار ثابت نہیں ہوتا۔
کتنی موثر ہے؟
ٹرائل میں شامل سائنسدانوں کے مطابق اس دوا کے استعمال سے وینٹی لیٹر پر موجود ہر 3 میں سے ایک مریض کو بچانے میں مدد ملتی ہے۔
اسی طرح ہر 5 میں سے ایک ایسے مریض کو بھی بچایا جاسکتا ہے جن کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس دوا کا ان مریضوں پر کوئی نمایاں اثر دیکھنے میں نہیں آیا جن کو نظام تنفس کے لیے سپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ٹرائل کس لیے ہورہا تھا؟
منگل کو برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے زیرتحت ہونے والے کووڈ 19 کے علاج کے لیے ہونے والے ریکوری ٹرائل کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے جو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔
اس تحقیق میں اس وقت دستیاب ادویات کو دیکھا گیا تھا کہ وہ کووڈ 19 کے علاج میں کس حد تک مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
21 سو مریضوں کو تحقیق کے دوران 10 دن تک روزانہ 6 ملی گرام ڈوز دی گئی اور ان کی حالت کا موازنہ دیگر 43 سو مریضوں سے کیا گیا جن کو کوئی اضافی دوا نہیں دی گئی تھی۔
سائنسدانوں کو توقع ہے کہ ڈیکسا میتھازون کو جلد مختلف ادویات کے مجموعے میں شامل کیا جاسکے گا جو اکٹھے مل کر اموات کی شرح کو مزید کم کرسکیں گی۔
یہ دوا بالغ افراد کو دینے کا مشورہ دیا گیا ہے، جبکہ ٹرائل میں حاملہ یا بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
کیا یہ دوا آسانی سے دستیاب ہے؟
ڈیکسا میتھازون ایک سستی دوا ہے جو دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب ہے۔
اس دوا کی قیمت پاکستان میں بھی چند سو روپے سے زیادہ نہیں اور کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے لیے 10 دن میں روزانہ لگ بھگ ساڑھے 5 پاؤنڈز کی دوا دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں : کورونا وائرس: ڈاکٹر ظفر مرزا نے ڈیکسامیتھازون کے استعمال پر خبردار کردیا
یہ دوا 1957 میں تیار ہوئی تھی اور چونکہ اس کو بہت طویل عرصہ ہوچکا ہے تو اب اس کی تیاری کے لیے پیٹنٹ یا حقوق حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یعنی اسے متعدد کمپنیاں تیار کرسکتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ بہت آسانی سے دستیاب ہے۔
برطانوی حکومت نے اسے متوازی برآمدی فہرست میں شامل کیا ہے جس کے تحت کمپنیوں کو اس کی خریداری سے روک کر کسی اور ملک میں زیادہ قیمت پر فروخت کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
عالمی ردعمل
عالمی ادارہ صحت نے ان نتائج کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ معمولی علامات والے مریضوں کے لیے مزید طریقہ علاج دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ نتائج ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی کسی خوشخبری سے کم نہیں۔
متعدد افریقی ممالک میں اس دوا کی قیمت 2 ڈالرز سے بھی کم ہے۔
جنوبی افریقہ، جہاں یہ دوا تیار کی جاتی ہے، حکومت نے پہلے ہی آکسیجن یا وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں کے علاج کے لیے اسے استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کونسی دیگر بیماریوں کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے؟
یہ دوا متعدد امراض بشمول جسمانی ورم یا سوجن کے لیے استعمال کی جاتی ہے، اسی طرح بہت زیادہ متحرک مدافعتی نظام سے لاحق ہونے والے مسائل جیسے شدید دمہ جو سانس کی گزرگاہ اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے، الرجی کے ری ایکشن اور جوڑوں کے ورم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ دوا آٹو امیون امراض جیسے لپس کے لیے بھی کارآمد ہے، جس میں مدافعتی نظام جسم پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔
کیا کسی قسم کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
کووڈ 19 سے ہٹ کر دیگر امراض کے علاج میں اس دوا کے استعمال سے ہونے والے عام مضر اثرات میں ذہنی بے چینی، نیند میں مشکلات، جسمانی وزن میں اضافہ اور جسم میں سیال جمع ہونا قابل ذکر ہیں۔
بہت کم افراد کو آنکھوں کے امراض، بینائی دھندلانے اور ہیمرج کا بھی سامنا ہوتا ہے۔
تاہم کورونا وائرس کے مریضوں کو اس دوا کی کم ڈوز استعمال کرائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مضر اثرات محدود رہنے کا امکان ہے۔