طارق عزیز کی ایک زندگی اور اس کے کئی باب
ریڈیو پاکستان کے نیوز کاسٹر، پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر، نیلام گھر کے کرتا دھرتا، فلم ساز، رکنِ پارلیمنٹ، پنجابی شاعر اور متضاد سیاسی جماعتوں کا دم بھرنے والے طارق عزیز 84 برس کی عمر میں راہی ملک عدم ہوگئے۔
اپنی زندگی میں انہوں نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے کہ ان کی زندگی شہرت اور سمجھوتوں کا اک سبق آموز امتزاج رہی۔
28 اپریل 1936ء کو برٹش پنجاب کے تاریخی ضلع جالندھر میں پیدا ہونے والے طارق عزیز کا خاندان 14 اگست 1947ء کے بعد ساہیوال آن بسا۔ نوجوان طارق عزیز کا خاندان کس طرح تقسیمِ پنجاب کے وقت جالندھر سے بے گھر ہوا کہ یہ داستان ہمیں قصہ گو طارق عزیز نے کبھی نہیں سنائی۔
ساہیوال میں اسکول کی تعلیم کے دوران ان کے ساتھیوں میں ڈاکٹر مہدی حسن بھی شامل تھے جنہوں نے بطورِ استاد صحافت میں نام پیدا کیا۔ بقول ڈاکٹر صاحب طارق عزیز بہت سی خوبیوں کے مالک تھے اور ایک اچھے مقرر بھی تھے مگر ٹی وی کی چمک ان خوبیوں کو گہنا گئی۔
پاکستان بننے کے بعد 1950ء کی دہائی میں نوجوان طارق عزیز نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا، جہاں انہیں ریڈیو سے خبریں پڑھنے کا خاصا تجربہ حاصل ہوا۔ ریڈیو کے اسی تجربے اور تقریری مقابلوں نے نوجوان طارق عزیز پر جو اثر ڈالا، وہ مرتے دم تک ان کی شخصیت پر غالب رہا۔
1964ء کے بعد وہ ریڈیو سے ہوتے ہوئے ٹی وی پر آئے اور پی ٹی وی کے پہلے مرد اناؤنسر بنے۔ 1970ء کے تاریخی انتخابات سے قبل پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 23 مارچ کے دن ہونے والی کسان کانفرنس کے روح رواں تو مولانا بھاشانی تھے البتہ بقول فیاض باقر اس کے مقررین میں مطیع الرحمٰن اور معراج محمد خان کے علاوہ نوجوان طارق عزیز بھی شامل تھے۔
دورانِ کانفرنس کچھ دنگے بھی ہوئے اور اس میں طارق عزیز کا نام بھی شامل تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں طارق عزیز نے بتایا کہ وہ ترقی پسند خیالات کی وجہ سے بھٹو کو پسند کرتے تھے اور اسی لیے پیپلز پارٹی کے اسیر ہوئے تھے۔
1974ء میں پی ٹی وی نے ایک پروگرام نیلام گھر شروع کیا تو طارق عزیز اس کے میزبان بنے۔ نیلام گھر سے قبل ضیا محی الدین شو پی ٹی وی پر چار چاند لگا چکا تھا۔ تاہم نیلام گھر اپنے منفرد انداز اور طارق عزیز کی مہارت کی وجہ سے اپنا ایک الگ ہی مقام بنانے میں کامیاب رہا۔
5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا نے ملکی آئین کو پامال کرتے ہوئے بھٹو کی منتخب سرکار کو چلتا کیا تو پی ٹی وی سے لے کر یونیورسٹیوں تک ترقی پسندوں پر زمین تنگ کردی گئی اور انہیں چن چن کر نکالا جانے لگا۔ پی ٹی وی پر خدا حافظ کا دور ختم ہوا اور اللہ حافظ بولنا لازم ہوا۔ خواتین کو دوپٹے اور حجاب میں دکھانے کا ساتھ ساتھ عوام کو بھٹو کے مظالم سے آگاہ کرنا بھی نئے ایجنڈے کے لازمی عناصر تھے۔
تاہم نظریات سے نوکریوں تک ضیائی دور میں شروع ہونے والی اس تمام اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود نیلام گھر بدستور جاری رہا۔ یہ جالندھر کا کمال تھا یا طارق عزیز کی مہارت، اس راز سے کبھی انہوں نے پردہ نہیں اٹھایا۔
ایک ٹی وی پروگرام میں جب اس تضاد کی طرف سہیل وڑائچ نے ان کی توجہ مبذول کروائی تو انہوں نے کہا کہ مجھے ضیاالحق کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ضیاالحق کو میری ضرورت تھی۔ اپنی بات میں وزن ڈالتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ضیاالحق نے تو مجھے 10 خط لکھے مگر میں نے کسی ایک خط کا جواب بھی نہیں دیا۔ نیلام گھر پر ضیائی رنگ نمایاں ہوا اور سوالوں کی چوائس بھی نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگئی۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس دوران نیلام گھر کی وجہ سے بہت سے نئے چہروں کو بھی آگے آنے کا موقع ملا مگر جس جبر سے پی ٹی وی گزرا اس کی مثال تاریخِ پاکستان میں عنقا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں سرکاری ٹی وی کا راج تھا اور سرکاری ٹی وی پر طارق عزیز کا طوطی بولتا تھا۔ ضیاالحق کے مرنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے حکومت بنائی تو پی ٹی وی نے نیلام گھر شو بند کردیا۔ اب طارق عزیز میاں محمد نواز شریف کے باوجوہ اسیر ہوئے کہ یوں نیلام گھر بحال ہوگیا اور 1992ء میں طارق عزیز کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملا۔
1997ء کے انتخابات میں وہ مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر لاہور سے عمران خان کے خلاف الیکشن لڑے۔ ان کا بتانا ہے کہ ان انتخابات میں انہیں 50 ہزار جبکہ عمران خان کو 4 ہزار ووٹ ملے تھے۔ میاں نواز شریف نے وزیرِاعظم بنتے ہی 13ویں اور 14ویں ترامیم کے ذریعے نہ صرف بدنامِ زمانہ 58 ٹو بی ختم کردی بلکہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی اراکینِ پارلیمنٹ پر لگا دی۔
جب اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان ترامیم کو خلافِ قانون قرار دینے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کا گروہ گھس آیا۔ ان حامیوں میں طارق عزیز بھی شامل تھے۔ بعد ازاں مشرف دور میں ان مبیّنہ حملہ آوروں میں سے کئی لوگ باوجوہ مسلم لیگ (ق) کے شامل ہوئے اور ان میں طارق عزیز بھی شامل تھے۔
طارق عزیز کی بیگم ہاجرہ طارق بھی 2002ء میں (ق) لیگ کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی بنی تھیں۔ پیپلز پارٹی سے براستہ مسلم لیگ (ن) انہوں نے (ق) لیگ تک سفر کیا مگر اس کے باوجود وہ کہتے رہے کہ میں اوّل و آخر ترقی پسند ہوں۔
طارق عزیز نے اپنی زندگی میں چند فلمیں بھی بنائیں مگر یہاں صورتحال سیاست سے بھی ابتر نکلی۔ ان کی پنجابی شاعری کی کتاب ’ہمزاد دا دکھ‘ اپنی جگہ ایک منفرد مثال ہے کہ اس کے چند اشعار پڑھیں
1۔ کتبہ
جزا سزا دے وہم نے
کجھ وی کرن نہ دِتا
زندہ رہن دے سہم نے
چج نال مرن نہ دِتا
2۔ سچا شرک
دُور پرے اسماناں تے
رب سچے دا ناں
ہیٹھاں ایس جہان وِچ
بس اِک ماں اِی ماں
طارق عزیز آج ہم میں نہیں مگر شہرت اور سمجھوتوں سے مزین ان کی زندگی ہمارے روبرو بہت سے سوالات لیے کھڑی ہے۔ آپ چاہیں تو اس سب کو بھول جائیں اور اگر آپ بھی ان سوالوں کو اہم گردانتے ہیں تو پھر اس پر خود بھی غور کریں اور دوسروں کے ساتھ بھی شئیر کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں