• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

وزیراعلی سندھ نے مالی سال 21-2020 کیلئے 12 کھرب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کردیا

شائع June 17, 2020 اپ ڈیٹ June 18, 2020
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مالی سال 21-2020 کے لیے 12 کھرب روپے سے زائد کا مالی بجٹ پیش کردیا۔

اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی سربراہی میں جاری اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ مشکل حالات کے باجود مالی سال 21-2020 کا بجٹ پیش کررہا ہوں۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میرے لیے فخر کا مقام ہے کہ میں 8ویں بار بجٹ پیش کررہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا اور ٹڈی دل کی وجہ سے صوبہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے، سندھ کے عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ 2020: عوام کے لیے کیا اچھا رہا اور کیا بُرا؟

مراد علی شاہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں مالی سال 20-2019 میں وفات پانے والے اراکین کو یاد کیا اور کہا کہ ہمیں اس موقع پر کورونا وائرس سے انتقال کرنے والے افراد کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کورونا وائرس کے معاملے پر سنجیدگی اختیار کرے، ہم نے بجٹ میں کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود افراد کے لیے فنڈ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں معاشی صورتحال اور غریب عوام کو خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے شور شرابا کیا گیا لیکن مراد علی شاہ نے تقریر جاری رکھی۔

انہوں نے کہا کہ ریونیو اخراجات کا مجموعی حجم 969 ارب روپے ہے، یہاں اس بات کی نشاندہی کی ضرورت ہے کہ ہم نے کورونا وائرس کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخرجات طے کرنے کی کوشش کی ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ محکمہ صحت کے بجٹ کو طبی خدمات اور طبی تعلیم کے 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویز

انہوں نے کہا کہ مالی سال 20-2019 میں محکمہ صحت کے بجٹ کا تخمینہ 120 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا جو آئندہ مالی سال 21-2020 میں بڑھا کر 139 ارب 17 کروڑ 80 لاکھ روپے کردیا گیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تعلیم کے شعبے کا بجٹ مالی سال 20-2019 کے 212 ارب 40 کروڑ روپے سے بڑھا کر آئندہ مالی سال کے لیے 242 ارب 50 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود ہم نے فنڈز مختص کیے ہیں جو جاری ریونیو بجٹ کا 25.2 فیصد ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں تعلیم کے لیے 397 جاری اور 11 نئی لیکن غیر منظور شدہ اسکیمز کے لیے 21 ارب 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن کو دنیا بھر میں واحد قابل عمل حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے کووڈ 19 کے خطرات سے نمٹنے کے لیے عالمی طور پر اختیار کی گئی حکمت عملی کی پیروی کی ہے اور سندھ وہ پہلا صوبہ تھا جہاں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد اور اطلاق کے لیے اقدامات عمل میں لائے گئے۔

حکومت سندھ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات

  • 3 ارب روپے سے کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈ تشکیل دیا گیا۔
  • ایک ارب 30 کرور روپے سندھ حکومت اور تقریباً ایک ارب 70 کروڑ روپے صوبائی ملازمین کی جانب سے مہیا کئے گئے۔
  • رقم کے استعمال کی نگرانی اور منظوری کے لیے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
  • کووڈ 19 سے نبردآزما تمام طبی عملے کے لیے ایک رواں بنیادی تنخواہ کی شرح سے ہیلتھ رسک الاؤنس کی منظوری دی گئی۔
  • پوسٹ گریجویٹ / ہاؤس جاب آفیسرز کو بالترتیب گریڈ 17 اور 18 کی ابتدائی بنیادی تنخواہ مارچ 2020 سے کووڈ- 19 وبا کے خاتمے تک دی جائے گی۔
  • 2020-21 میں ہیلتھ رسک الاؤنس پر ایک ارب روپے خرچ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
  • صوبے میں کورونا ٹیسٹنگ کی استطاعت بڑھا کر یومیہ 11450 کردی گئی۔
  • تمام اضلاع میں 81 قرنطینہ مراکز جن میں 8266 بستروں کی گنجائش موجود ہے قائم کیے گئے جبکہ جون 2020 تک یہ گنجائش 8616 تک بڑھا دی جائے گی۔
  • طبی سہولیات اور خدمات کی بروقت اور درست فراہمی کے لیے سندھ حکومت نے میڈیکل پروکیورمنٹ کمیٹی قائم کی جس نے ضروری مشینری آلات اور اوزاروں کی 2.43 ارب روپے کی خریداری کی ہے۔
  • موجودہ وینٹی لیٹرز میں اضافے کے لیے 101 مزید وینٹی لیٹرز بمعہ 250 مانیٹرز خریدے گئے۔
  • نیپا چورنگی کراچی پر واقع وبائی امراض کے ہسپتال کو گرانٹ ان ایڈ کے تحت 2 ارب روپے کی امداد دی گئی۔
  • سندھ حکومت نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ایک ارب سے زائد روپے جاری کیے تاکہ ضرورت مندوں کو ان کی دہلیز پر راشن مہیا کیا جاسکے۔

بجٹ 21-2020 کے اہم نکات:

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مالی سال 21-2020 کے لیے 12 کھرب روپے سے زائد کا مالی بجٹ پیش کیا جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

  • سندھ بجٹ 21-2020 کا تخمینہ 1241.13 ارب روپے ہے۔
  • بجٹ 21-2020 کا مجموعی خسارہ 18.38 ارب روپے ہے۔
  • غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 9868.99 ارب روپے ہے۔
  • ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 2232.94 ارب روپے ہے۔
  • کیپٹل اخراجات کا تخمینہ 39.19 ارب روپے ہے۔
  • کل ٹیکس وصولی کا تخمینہ 1222.75 ارب روپے ہے۔
  • وفاقی ٹیکس وصولی کا تخمینہ 760.30 ارب روپے یعنی 65 فیصد ہے۔
  • صوبائی ٹیکس وصولی کا تخمینہ 313.39 ارب روپے یعنی 26.8 فیصد ہے۔
  • کیپٹل ٹیکس وصولی کا تخمینہ 25 ارب روپے یعنی2.1 فیصد ہے۔
  • دیگر ٹیکس وصولی (پی ایس ڈی پی اور ایف پی اے) کا تخمینہ 67.05 ارب روپے یعنی 5.9 فیصد ہے۔
  • بجٹ 21-2020 میں کوئی نیا ٹیکس متعارف نہیں کرایا گیا۔
  • غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ صرف 7 فیصد تک محدود ہے۔
  • غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ بنیادی طور پر کورونا وائرس کی وجہ سے ہے جس کی مالیت 4.2 ارب روپے ہے۔
  • بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 19 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • تعلیمی شعبے میں 22.9 ارب روپے کا اضافہ موجودہ سال میں ہے۔
  • رواں سال وفاقی ٹیکس وصولی میں 71.72 ارب روپے یعنی 9 فیصد کی کمی آئی۔
  • مجموعی طور پر صوبائی ٹیکس وصولی کا تخمینہ 313.4 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال سے 9 فیصد زیادہ ہے۔
  • شہری علاقوں میں غربت کے خاتمے کے پروگرام برائے چھوٹے کاروبار کے لیے 300 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
  • دیہی علاقوں میں چھوٹے کارکنوں/برادریوں کے لیے غربت کے خاتمے کے پروگرام کے لیے 200 ارب روپے کی تجویز ہے۔
  • سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام کے تحت کیش ٹرانسفر کے لیے 2000 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
  • چھوٹے کسانوں کو معیاری چاول بیج کے لیے بطور رعایت ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • چھوٹے کسانوں کو کھاد کی سبسڈی کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • 100 ارب روپے چھوٹے کسانوں کو کیڑے مار دوا کے لیے سبسڈی کے طور پر مختص کیے ہیں۔
  • سندھ بینک کے توسط سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کیلئے سافٹ لون پروگرام کیلئے 500 ارب روپے مختص ہیں۔
  • آئی ٹی ٹیکنالوجی انٹروینشن اور اینوویشن سولیوشن کے لیے 70 کروڑ روپے کی تجویز ہے۔
  • سپورٹنگ ٹیکنالوجی پر مبنی اسٹارٹپس انکیوبیٹرز اور ایکسلریٹرز کے لیے 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
  • محکمہ زراعت کے بجٹ میں 40 فیصد اضافے سے 15.84 ارب روپے کردیا گیا ہے۔
  • حکومت سندھ نے ٹڈی دل کے کنٹرول کے لیے 44 کروڑ روپے روپے مختص کیے ہیں۔
  • کووڈ 19 وبائی امراض اور متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے محکمہ صحت کے بجٹ میں 16.1 فیصد اضافے کے ساتھ 1939.18 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
  • معیاری تعلیم کے لیے اور وبائی امور کے بعد کے تعلیمی چیلنجز سے نمٹنےکے لیے تعلیمی محکموں کے بجٹ میں 10.2 فیصد اضافے سے 2245.14 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے.
  • لوکل کونسلوں کو دی جانے والی گرانٹ میں 5 فیصد اضافے سے 78.0 ارب روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔
  • صوبائی اے ڈی پی کا تخمینہ 155.0 ارب روپے ہے۔
  • ضلعی اے ڈی پی کا تخمینہ 15.0 ارب روپے ہے۔
  • وفاقی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کا تخمینہ 8.30 ارب روپے ہے۔
  • غیر ملکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کا تخمینہ 54.64 ارب روپے ہے۔
  • انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے منصوبوں کا تخمینہ 117.0 ارب روپے ہے۔

'محکمہ صحت کا بجٹ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے'

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مالی سال 21-2020 کے لیے پیش کردہ مالی بجٹ میں بتایا کہ اگلے مالی سال میں موجودہ آمدنی کے کُل اخراجات 139.1 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص رقم 23.5 ارب روپے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگلے مالی سال کے لیے ترقیاتی کاموں میں کچھ اہم منصوبوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ کیسا ہونا چاہیے؟

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ محکمہ صحت کا بجٹ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے ہیلتھ سروسز اور میڈیکل ایجوکیشن جبکہ مالی سال 20-2019 کے لیے محکمہ صحت کے بجٹ کا تخمینہ 120.486 ارب روپے تھا جسے اگلے مالی سال 21-2020 کے لیے بڑھا کر 139.178 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ پولیو، ٹی بی، ہپپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے لیے 9 پروگراموں کے لیے اگلے مالی سال 21-2020 میں 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

بجٹ میں صحت سے متعلق پروگرامز کے لیے مختص کی گئی رقوم سے متعلق اہم نکات:

  • ٹی بی کنٹرول پروگرام کے لیے 55 کروڑ 90 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ -صحت سمیت مختلف محکموں میں اسسٹنٹ اور غذایت کی کمی کے لیے ایک ملٹی سیکٹورل ایکسلریٹڈ ایکشن پلان کے تحت 5.5 ارب روپے۔
  • لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے لیے 1.2 ارب روپے۔
  • ہپاٹائٹس کی روک تھام کے لیے 1.9 ارب روپے۔
  • زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت سے متعلق صحت کے پروگرام کے لیے 26 کروڑ روپے۔
  • ای پی آئی پروگرام کے لیے 2.3 ارب روپے۔
  • نیپا کراچی میں 200 بستر والے موذی بیماریوں پر قابوں پانے والے ہسپتال کے لیے ایک ارب روپے۔
  • صحت سے متعلق 22 صحت کی سہولیات کو اپ گریڈ اور آپریشنل کرنے کے لیے ایک ارب روپے۔
  • لیاری جنرل ہسپتال کراچی کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو اپ گریڈ کر نے کے لیے 23 کروڑ روپے۔
  • سندھ میں کالعدم تنظیموں کی صحت کی سہولیات کو ٹیک اوور کرنے کے لیے 52 کروڑ روپے۔
  • رواں مالی سال کے دوران انڈس ہسپتال کراچی کے لیے خصوصی گرانٹ کے طور پر 4 ارب روپے۔
  • صحت کی سہولیات کے لیے پلانٹ اور مشینری کی خریداری کے لیے 1.5 ارب روپے۔
  • صحت کی سہولیات میں فرنیچرز اور فکسچر کی خریداری کے 25 کروڑ روپے۔
  • این آئی سی وی ڈی کراچی کے لیے 5.1 ارب روپے۔
  • ایس آئی سی وی ڈی کے لیے 5.1 ارب روپے۔
  • پی پی پی نوڈ محکمہ صحت کے لیے 2.5 ارب روپے۔
  • پیر عبدالقادر شاہ جیلانی، گمبٹ کے ادارے کے لیے 3.6 ارب روپے۔
  • انسٹی ٹیوٹ آف آپتھلمالوجی اینڈ ویزول سائنس حیدرآباد کے لیے 30 کروڑ روپے۔
  • جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے لیے 60 کروڑ روپے۔
  • ایس ایم بی بی ٹراما سینٹر کراچی کے لیے 1.7 ارب روپے۔
  • شہداد پور انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے لیے 30 کروڑ روپے۔
  • ایس آئی یو ٹی (SIUT) کے لیے 5.6 ارب روپے۔
  • پی پی ایچ آئی سندھ کے لیے 6.5 ارب روپے۔
  • این آئی بی ڈی کے لیے 50 کروڑ روپے سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں۔

اسکل ڈیولپمنٹ اور روزگار کے مواقع

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ بینظیر بھٹو شہید یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کو مستقل کر دیاگیا ہے جس کے تحت گزشتہ 12 برس میں تقریباً 4 لاکھ 4 ہزار 235 نوجوانوں کو تربیت دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ 25 ہزار نوجوانوں کو نجی اور سرکاری شعبے کے توسط سے مختلف روزگار تجارت میں تربیت دی جائے گی اور ہر ٹرینی کو ماہانہ ڈھائی ہزار روپے بطور وظیفہ دیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی نے پورے سندھ میں 22 مزید اداوں کی منظوری دی۔

ورکس اینڈ سروسز روڈ سیکٹر

وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ سندھ میں محفوظ تیز اور قابل اعتماد نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے اس لیے مذکورہ شعبے کے فروغ کی 17 اسکیموں کے لیے 6.4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ میں وہیکل انسپیکشن اینڈ سرٹیفیکیشن سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنا ہے جبکہ 3 ارب روپے کے سی آر روٹ کے ساتھ ریلوے کراسنگ پر انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج کی تعمیر، بی آر ٹی ایس اورنج لائن 4 کلومیٹر طویل راہداری کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

مزیدپڑھیں: حکومت کا بجٹ میں 7 کھرب 75 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا ارادہ

وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں 74 ارب روپے کی تخمینہ لاگت کے 2 نئے منصوبے شامل ہیں۔

بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ:

  • آئندہ مالی سال میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے لیے 14.8 ارب روپے۔
  • حکومت سندھ کی عمارتوں اور اسٹرکچر کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے 4.1 ارب روپے۔
  • سندھ میں سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے 3.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ مختص کردہ 24 ارب روپے کی 413 اسکیمیں رواں مالی سال 20-2019 پر کام جاری ہے۔

'شبعہ تعلیم کے لیے محصولاتی بجٹ کا 25.5 فیصد مختص کیا گیا'

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اگلے مالی سال 21-2020 کے لیے میکرو مینجمنٹ کے تناظر میں تعلیم کے شعبے کا بجٹ بڑھا کر 244.5 ارب روپے کر دیا گیا جو وسائل کی کمی کے باوجود ہم نے جو فنڈز مختص کیے ہیں وہ ہمارے موجودہ محصولاتی بجٹ کا 25.2 فیصد ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 21-2020 کے لیے اے ڈی پی میں تعلیم کے شعبے میں 397 جاری، 11 نئے غیر منظور شدہ منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 21.1 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

مزیدپڑھیں: حکومت کی نظریں ملکی مجموعی پیداوار 4 فیصد تک لے جانے پر مرکوز

سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبائی ترقیاتی بجٹ کے وسائل مختص کر نے کے علاوہ ایف پی اے کے تحت 3.1 ارب روپے اور محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کے 265 جاری اسکیموں اور 4 نئی اسکیموں کے لیے 13.2 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے بتایا کہ محکمہ کالج ایجوکیشن کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام 21-2020 میں 67 جاری اور 2 نئی اسکیموں کے لیے 3.71 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں اور بورڈز کی ترقیاتی ترجیحات کے لیے 3.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

'محکمہ زراعت کا انحصار مضبوط آبپاشی نظام پر ہوتا ہے'

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبہ سندھ کے تین بیراج گدو، سکھر اور کوٹری اسکے ساتھ ساتھ نہری نظام سندھ کی زیر کاشت اراضی کو پانی کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران آبپاشی کے شعبے میں غیر ترقیاتی سائیڈ کے لیے 23 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جو کہ نظر ثانی شدہ تخمینے 20-2019 میں کم کر کے 17.2ارب کردیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ تینوں بیراجوں گدو، سکھر اور کوٹری اور پرانے آبپاشی نظام کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہے اور توانائی بحران کے پیش نظر ڈیزل پر چلنے والے ٹیوب ویلوں کو سولر یا ونڈ پاور پر منتقل کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: صوبوں سے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے 110 ارب روپے مختص کرنے کا مطالبہ

انہوں نے بتایا کہ 198 جاری اور 18نئی غیر منظور شدہ اسکیموں کے لیے اے ڈی پی 21-2020 میں آبپاشی شعبے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں20.1 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ آبپاشی سے متعلق اسکیمیں، اہم نہروں کے پشتوں کی تعمیر، اس طرز کی دیگر اسکیمیں اور تھر کول انفرااسٹرکچر پروجیکٹس شامل ہیں۔

سندھ کی لوکل باڈیز کے لیے مختص کردہ رقم

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ نے رواں مالی سال 20-2019 میں سندھ کی لوکل باڈیز کے لیے مختص کردہ 74.5 ارب روپے کی گرانٹ میں آئندہ مالی سال 21-2020 کے لیے 5 فیصد اضافہ کرکے اسے 78 ارب روپے کردیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت سندھ کے ایم سی کے مالی بوجھ کو اٹھانے میں بھی حصہ دار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو مخالف تنظیموں کا سگریٹ کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ

سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ ماہانہ بنیاد پر ریگیولر او زیڈ ٹی اکاؤنٹ شیئر، ریگیولر پینشن اور ریگیولر گرانٹ ان ایڈ (مالی معاونت) کے لیے بالترتیب 16 کروڑ روپے، 43 کروڑ روپے اور 21 کروڑ روپے جاری کرتی ہے جوکہ کل رقم 88 کروڑ 55 لاکھ روپے بنتی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ تنخواہیں/پینشن دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے ماہانہ بنیاد پر کے ڈی اے کو گرانٹ ان ایڈ (مالی معاونت) کی مد میں 20 کروڑ 40 لاکھ روپے جاری کئے جا رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024