چین اور بھارت تصادم، بھارتی سرکار کی ہندوتوا سوچ کا کیا دھرا ہے، وزیر خارجہ
چین اور بھارت کے مابین پائی جانے والی کشیدگی پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تبت اور لداخ کا 3500 کلومیٹر کا علاقہ چین کا متنازع سرحدی علاقہ ہے اور اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے ہضم کر لے گا تو شاید یہ چین کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ دنوں سے چین اور بھارت کے مابین کشمکش بڑھتی دکھائی دے رہی تھی، چین نے حتیٰ الوسع کوشش کی کہ معاملہ افہام و تفہیم سے گفتگو کے ذریعے حل ہو تاہم بھارت نے چین کی بات کو درخورِ اعتناء نہ سمجھتے ہوئے متنازع علاقے میں تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز چین اور بھارت کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ کے نتیجے میں کم از کم 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 9 مئی کو ایک چپقلش ہوئی مگر اب یہ خونی تصادم میں تبدیل ہو چکا ہے۔
انہوں نےمزید کہا کہ اب جو اطلاعات سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق 20 سے زیادہ بھارتی فوجیوں اور افسران کی اموات ہو چکی ہیں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ سب بھارتی سرکار کی ہندوتوا سوچ کا کیا دھرا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد خونی تصادم کی یہ صورت دیکھنے میں آ رہی ہے، بھارت اپنی ہندتوا سوچ اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے گا تو حالات خراب ہوں گے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے جو یکطرفہ اقدام کیا اسے نہ صرف پاکستان مسترد کر چکا ہے بلکہ چین بھی اس پر معترض ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی
ان کا کہنا تھا کہ بھارت معقولیت کی بجائے جنونیت کی سوچ پر گامزن ہے جو رویہ انہوں نے اپنے ملک میں اپنی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے ہم خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں اور افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کاوشیں بھی ساری دنیا کے سامنے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر بھارت سمجھتا ہے کہ کوئی اس کے جارحانہ رویے سے مرعوب ہو گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دہرایا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کے حل کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے پس پشت ڈال دیا اور فروری میں جب ہندوستان نے جارحیت کا مظاہرہ کیا تو پاکستان نے بھرپور جواب دیا۔
یہ بھی پڑھیں: چین سے سرحدی تنازع: بھارت نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش مسترد کردی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چین کا مؤقف اصولی ہے کہ تبت اور لداخ کا 3500 کلومیٹر کا علاقہ بھارت اور چین کا متنازع سرحدی علاقہ ہے اور اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے ہضم کر لے گا تو شاید یہ چین کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔
چین اور بھارت سرحدی تنازع
خیال رہے کہ بھارت اور چین کی سرحدیں ہمالیہ میں ملتی ہیں اور دونوں ممالک میں طویل عرصے سے سرحدی تنازع جاری ہے، دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔
چین، بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے البتہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے مغربی ہمالیہ میں اس کے 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کے متعلقہ حکام نے 20 مرتبہ ملاقات بھی کی تھی لیکن کوئی بھی اہم پیشرفت نہ ہو سکی تھی۔
مئی سے اب تک دونوں جوہری طاقت کے حامل ملکوں کے درمیان جاری تناؤ میں ہزاروں فوجی دستے آمنے سامنے آ چکے ہیں جس پر ماہرین نے انتباہ جاری کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی خطے میں ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
9مئی کو بھارتی اور چینی فوجی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ میں ہاتھا پائی ہوئی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا تھا جس سے کئی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیں: نئی بھارتی سڑکیں چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی وجہ بنیں، مبصرین
اس کے علاوہ دونوں ممالک میں سرحدی تنازع کی وجہ سے 1962 میں جنگ بھی لڑی جا چکی، چین بھارت کی شمال مشرقی ریاست آندھرا پردیش پراپنا حق تسلیم کرتا ہے، کیوں کہ وہاں تبتی نسل کے افراد کی آبادی زیادہ ہے۔
حالیہ کشیدگی کے حوالے سے مبصرین کا کہنا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان ہمالیائی سرحدی تنازع پر کشیدگی بھارت کی نئی سڑکوں اور ہوائی پٹیوں کی تعمیر کی وجہ سے سامنے آئی۔
چینی وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے ہی بیان میں کہا تھا کہ سفارتی اور فوجی ذرائع کے ذریعے مؤثر روابط کی بدولت حالیہ سرحدی تنازع حل کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے ۔
تاہم اس کے باوجود 17 جون کو ایک جھڑپ کے نتیجے میں بھارت کی جانب سے ایک افسر سمیت 3 فوجیوں کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں بھارتی فوج نے 20 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی گئی تھی۔