’جائیدادوں‘ کی تفصیلات جاسوسی کے ذریعے حاصل کی گئیں، جسٹس عیسیٰ
اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ان کی تین مبینہ آفشور جائیدادوں کی تفصیلات جاسوسی کے ذریعے حاصل کی گئی۔
صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست سننے والی سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب الجواب میں درخواست گزار جج نے کہا کہ عبدالوحید ڈوگر، جن کی شکایت پر سپریم جوڈیشنل کونسل میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا، نے ابھی تک ان کی اہلیہ کی مبینہ آفشور جائیدادوں سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دستاویز میں کہا گیا کہ اسی طرح اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین بھی سامنے نہیں آرہے اور نام نہاد دستاویزی ثبوت ریفرنس کی شکایت کے ساتھ منسلک کیے گئے نا اس کے بعد جمع کروائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: 'ذہن میں رکھیں ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی پر ختم کیا جاچکا ہے'
جواب الجواب میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 14 ماہ کے بعد بھی وفاقی حکومت نے اب تک مبینہ تلاشی کے حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ 192 ڈاٹ کام اور ایچ ایم رجسٹری سرچ انجن کے ذریعے انجام دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر دلائل کے طور پر مان بھی لیا جائے کہ یہ تلاشیاں کی گئیں اور درخواست گزار کی اہلیہ اور بیٹا، بیٹی 3 جائیدادوں کے مالک نکلے تو بھی حکومت نے کسی ایک تلاشی کا بھی مکمل ریکارڈ پیش نہیں کیا۔
جواب الجواب میں دعویٰ کیا گیا کہ کہ لہٰذا کوئی تلاشی کی ہی نہیں گئی اور درخواست گزار کے اہِلِ خانہ کے نام اور جائیدادوں کی تفصیلات جاسوسی کے ذریعے حاصل کی گئیں۔
جواب الجواب میں مزید کہا گیا کہ تلاشی کرنے والوں اور اس کے لیے ادائیگی کرنے والوں کی شناخت کو پوشیدہ رکھا گیا اور اگر یہ دستاویزت فراہم کی جائیں تو انکشاف ہوگا کہ عبدالوحید ڈوگر مبینہ پراکسی ہے۔
مزید پڑھیں: فائز عیسیٰ کیس: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'
اس سلسلے میں ایک سوال کا جواب حکومت کی جانب سے درکار ہے وہ یہ کہ کیا وہ مواد چھپانے کا حق رکھتے ہیں اور عدالت کو گمراہ کررہے ہیں۔
جواب الجواب میں الزام لگایا گیا کہ متعلہق فریق(حکومت) بہت اختراعی ہے اور اس لیے قبل اس کے کہ سان کی مبینہ چالاکی ان سے کہے کہ تمام 6 تلاشیوں میں سے کسی بھی تلاشی کی دستاویز محفوظ نہیں یا وہ گم گئیں، پھٹ گئیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ 19ڈاٹ کام اور ایچ ایم رجسٹری کی تحقیقات مکمل طور پر الیکٹرونک ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ کاغذ جس پر ای میل بھیجا یا وصول کیا گیا ہو گم سکتا ہے لیکن ای میل اکاؤنٹ کے ماکلک کا ان باکس، سبھیجی گئی ای میل کا فولڈر الیکٹرونک طریقے سے ہر چیز واپس لا سکتا ہے اور نمبر بھی دوبارہ پرنٹ کیے جاسکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز کا مزید کہنا تھا کہ اسی چیز کا اطلاق ڈیبٹ کارڈ/کریڈٹ کارڈ پر بھی ہوتا ہے کہ اور کمپنی یا بینک کو تازہ دستاویز جاری کرنے کے لیے رابطہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان دستاویز کی عدم فراہمی نے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس:فروغ نسیم سے تند و تیز سوالات،ریفرنس کی تجویز دینے والے کا نام بتانے پر زور
جواب الجواب میں مزید کہا گیا کہ ’یہ ان افراد کی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے جنہوں نے یہ تحقیقات کیں یا جنہوں نے اس کے لیے ادائیگی کی ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ تحقیقات کبھی کی ہی نہیں گئیں یا اس طریقے سے نہیں کی گئیں جو بیان کیا گیا۔
جواب الجواب میں یہ بھی کہا گیا کہ اپنے پراکسی عبدالوحید ڈوگر کے لیے ان کی وابستگی اور عزائم مدمقابل جواب دہندہ کے مبینہ، کینہ پروری، بدنیتی پر مشتمل مذموم مقاصد ظاہر کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔