ملز مالکان چینی 70 روپے کلو فروخت نہیں کررہے، حکومت کا عدالت میں اعتراض
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ چینی کی ملز کے مالکان غیر تجارتی صارفین کو چینی 70 روپے فی کلو میں فروخت کرنے کی شرط پر عمل نہیں کررہے ہیں اس لیے ان کے خلاف انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں مجوزہ کارروائی کو روکا نہیں جاسکتا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11 جون کو چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے شوگر کمیشن کی سفارشات جس میں ملز مالکان کے خلاف مجرمانہ مقدمے کے اندراج پر زور دیا گیا تھا، پر اس شرط کے ساتھ حکم امتناع جاری کیا تھا کہ وہ عام آدمی کو 25 جون تک 70 روپے کلو میں چینی فروخت کریں گے۔
درخواست گزاروں میں پاکستان شوگرملز ایوسی ایشن (پی ایس ایم اے)، جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کی زیر ملکیت شوگر ملز، سلیمان شہباز شریف، مخدوم عمر شہریار، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سردار علی رضا خام دریشک اور دیگر شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو شوگر کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد سے روک دیا
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ 5 برسوں کے دوران 40 لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی جبکہ 29 ارب روپے سے زائد رقم ایکسپورٹ سبسڈی کی مد میں شوگر ملز کو دی گئی۔
چنانچہ 15 جون کو ہونے والی سماعت میں گنے کے کسانوں نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی۔
اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ اگر ہائی کورٹ کسانوں کو اس معاملے میں فریق بننے کی اجازت دیتی ہے تو اس پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ شوگر ملز عدالت کی جانب سے 25 جون تک کے لیے دیے گئے عبوری ریلیف کی مقررہ شرط پر عمل درآمد نہیں کر رہیں۔
مزید پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'
ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس چینی مافیا نے منڈی میں اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی اس معاملے پر جتنی جلد ممکن ہو سماعت کی جائے چنانچہ چیف جسٹس اطہر من اللہ 17 جون کو اس کی سماعت کرنا چاہتے تھے لیکن طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ سماعت کو 19 جون کو مقرر کیا جاسکتا ہے۔
عدالت نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے کہا کہ اگر چینی کی صنعت کی نمائندگی کرنے والے وکیل عدالت میں حاضر نہ ہوسکے تو وہ کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شرکت کرسکتے ہیں۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ
یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی اپنی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
یہ بھی پڑھین: وزیر اعظم نے چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کو سزا کی منظوری دے دی
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ ہوا ہے اور گنے کی خریداری میں انڈر رپورٹنگ کی جارہی ہے، پاکستان میں جتنا گنا پیدا ہوتا ہے اور جتنی چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنی فروخت ہوتی ہے اس میں 25 سے 30 فیصد کا فرق آرہا ہے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا
شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
شہزاد اکبر نےمزید کہا تھا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ ہے۔
معاون خصوصی نے بتایا تھا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود صاحب کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔