اشرف غنی قطر میں بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کیلئے تیار
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کے لیے قطری نمائندے کے ساتھ اتفاق کرلیا۔
افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'افغان حکومت نے دوحہ میں صرف پہلی ملاقات کے لیے اتفاق کیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'تاحال براہ راست مذاکرات کے لیے مقام کا تعین نہیں ہوا ہے'۔
طلوع نیوز نے الجزیرہ عربی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا کہ صدر اشرف غنی اور قطر کے وزیر خارجہ کے نمائندہ خصوصی برائے انسداد دہشت گردی مصالحت کار مطلق بن ماجد القحطانی نے دوحہ میں بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا۔
مزید پڑھیں:امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا
رپورٹ کے مطابق مطلق بن ماجد القحطانی نے گزشتہ ہفتے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران صدر اشرف غنی اور دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقات کی اور امن عمل ہر تبادلہ خیال کیا۔
قطری نمائندے نے کابل میں افغان طالبان کے وفد سے بھی ملاقات کی تھی۔
مطلق بن ماجد القحطانی نے افغان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد قطری ٹی وی کو بتایا تھا کہ طالبان نے افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کردیا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔
ان کا کہا تھا کہ رواں ہفتے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ مکمل ہوجائے گا اور بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔
دوسری جانب افغانستان کے صدارتی محل کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے قطر میں ابتدائی طور پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
ان کا کنا تھا کہ قطر میں باقاعدہ بین الافغان مذاکرات سے متعلق اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
اشرف غنی نے طالبان سے بامعنی مذاکرات کے بعد کسی بھی معاہدے کی صورت میں نگران حکومت کی تشکیل کے امکان کو یکسر مسترد کردیا۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ میں سوویت یونین کے حمایت یافتہ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی تاریخی غلطی کو نہیں دہراؤں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر نجیب اللہ نے استعفے کا اعلان کرکے اپنی زندگی کی بڑی غلطی کی تھی اس لیے ہمیں اس غلطی کو دوبارہ دہرانے کے لیے نہ کہا جائے جس کے خاتمے سے ہم واقف ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان نے قیدیوں کے تبادلے پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کردیے
اشرف غنی نے کہا تھا کہ 'میرے خیال میں اب ہم راستے پر گامزن ہیں اور اگلے ہفتے ہم دنیا کو اگلے قدم سے آگاہ کرنے کے قابل ہوں گے'۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری کے آخر میں دوحہ میں امریکا کے معاون خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس موقع پر امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو بھی موجود تھے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا کہ ‘ملا برادر سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ سطح کے حکام نے افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا جبکہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ تاریخی ہے'۔
چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔
1-طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔
2-افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائےگا۔
3-طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
4-انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
امریکا کے ساتھ طالبان کے معاہدے میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت سے طالبان کے مذاکرات سے قبل افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں اور بدلے میں طالبان، افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کریں گے۔