• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

بھارت سرحدی تنازعات بڑھانے کے بجائے اندرونی معاملات پر توجہ دے، وزیر خارجہ

شائع June 14, 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی—فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 'توسیع پسندانہ قوم کی طرح برتاؤ' کرنے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹس میں انہوں نے کہا کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور 'پہلے پڑوسی' کی پالیسی کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوگی کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ پڑوسیوں کی نسبت بھارت کو اپنی نامناسب پالیسیوں، ناکامیوں اور فاشزم سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

شاہ محمود قریشی نے ہر پڑوسی کے ساتھ سرحدی تنازع کو بڑھکانے پر بھی بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی موجودہ حکومت کو بھارت کے غریب، نچلے طبقے اور اقلیتوں کی بہتر خدمت کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: بھارت کو نقد رقوم کی تقسیم کے پروگرام کی تفصیلات دینے کیلئے تیار ہیں، وزیر اعظم

خیال رہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ٹوئٹس وزیراعظم عمران خان کی اس پیشکش کے بعد سامنے آئیں جس میں انہوں نے ضرورت مند گھرانوں کو نقد رقم کی منتقلی کے پروگرام کے سلسلے میں بھارت کو معاونت فراہم کرنے کا کہا تھا۔

عمران خان نے ٹوئٹ کے ذریعے کہا تھا کہ 'ہماری حکومت نے 9 ہفتوں کے دوران ایک کروڑ خاندانوں کو کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں احساس کیش پروگرام کے ذریعے 120 ارب روپے کی نقد رقم شفاف طریقے سے فراہم کی ہے جبکہ ہمارے اس پروگرام کو بین الاقوامی طور پر سراہا گیا۔'

وزیر اعظم نے پیش کش کی تھی کہ وہ اس طرح کے پروگرام کے لیے بھارت کو مدد اور معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ عمران خان کی جانب سے یہ پیش کش پینسل وانیہ، یونیورسٹی آف شیگاگو اور ممبئی سے تعلق رکھنے والے سینٹر فار مانیٹرینگ انڈین اکنامی کی جانب سے ایک تحقیق کے بعد کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تقریباً 84 فیصد بھارتی گھرانے عالمی وبا کی وجہ سے آمدنی میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔

مزید یہ کہ معاشی صورتحال کے علاوہ بھارت میں وائرس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھی بھڑکایا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے وائرس کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے کام سے محروم ہونے والے غریبوں میں عدم تحفظ پیدا ہوگیا ہے۔

تاہم اس تمام صورتحال کے باوجود بھارت کی جانب سے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کو بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے اور لائن آف کنٹرول کے پار شہریوں اور سپاہیوں پر بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات سامنے آرہے ہیں جس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

پاکستان کے ساتھ تنازع کے علاوہ بھارت اس وقت لداخ کے علاقے میں چینی فورسز کے ساتھ تنازع میں مصروف ہے جہاں اپریل سے اب تک دونوں ممالک کے سیکڑوں فوجی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

علاوہ ازیں یہ بھی خبریں آئیں تھیں کہ چین اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کے درمیان مغربی ہمالیہ میں متنازع سرحد پر کامیاب مذاکرات ہوئے تھے اور کئی فوجیوں کو واپس بلایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چین، بھارت کے سرحد میں کشیدگی کم کرنے کیلئے مذاکرات

اس کے علاوہ بھارت کا اپنے ایک اور پڑوسی نیپال کے ساتھ بھی بارڈ روڈ پر تنازع چل رہا ہے کیونکہ نیپال کی جانب سے اس علاقے کو اپنا کہا جارہا ہے جبکہ نئی دہلی اسے مسترد کرتا آرہا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو 2 حصوں میں تقریب کرنے کے اعلان کے بعد نیپال میں بھی مظاہرے ہوئے تھے جس نے انہیں ایک نئے نقشے کی جانب راغب کیا تھا۔

جس کے بعد گزشتہ روز نیپال کی پارلیمنٹ نے ملک کے نئے نقشے کی منظوری دے دی تھی جس میں بھارت کے ساتھ متنازع کہلانے والے علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024