مہوش حیات کی کورونا کی تشخیص کی خبروں پر وضاحت
چند دن قبل معروف اداکارہ سکینہ سموں کے حوالے سے خبریں وائرل تھیں کہ وہ کورونا میں مبتلا ہوگئیں، جس کے بعد انہوں نے وضاحتی بیان جاری کیا تھا۔
سکینہ سموں نے افواہیں وائرل ہونے کے بعد ٹوئٹ کی تھی کہ ان سے ایک صحافی نے بار بار پوچھنا چاہا مگر انہوں نے اپنی صحت سے متعلق کوئی بھی بات بتانے سے انکار کیا تو ان کے حوالے سے جھوٹی خبریں وائرل کی گئیں۔
بعد ازاں انہوں نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہی معطل کردیا تھا۔
اسی طرح کورونا کا شکار ہونے والی اداکارہ ندا یاسر کے حوالے سے بھی خبریں وائرل ہوئی تھیں کہ ان کی طبیعت انتہائی خراب ہونے پر انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں منتقل کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سکینہ سموں خود سے متعلق کورونا کی جھوٹی خبروں پر برہم
تاہم ایسی خبریں وائرل ہونے پر ندا یاسر نے بھی وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے ایسی خبروں کو جھوٹا قرار دیا تھا۔
ان کی طرح معروف اداکارہ روبینہ اشرف کے حوالے سے بھی خبریں وائرل ہوئیں کہ ان کی طبیعت بھی انتہائی خراب ہوگئی اور انہیں بھی آئی سی یو میں داخل کرادیا گیا۔
مگر ایسی خبریں سامنے آنے کے بعد اداکارہ کی بیٹی مینا طارق نے وضاحت کی کہ مذکورہ خبروں میں کوئی سچائی نہیں، ان کی والدہ روبہ صحت ہیں۔
ایسی ہی خبروں کے بعد دو دن قبل افواہیں وائرل ہوئیں کہ معروف اداکارہ مہوش حیات میں بھی کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔
اداکارہ کے کورونا میں مبتلا ہونے کی خبریں سوشل میڈیا پر شوبز پیجز پر چلائی گئیں اور مذکورہ خبروں کو کئی لوگوں نے شیئر کیا۔
مزید پڑھیں: والدہ کے حوالے سے افواہیں نہ پھیلائیں، وہ روبہ صحت ہیں، بیٹی روبینہ اشرف
اپنی بیماری کی خبریں وائرل ہونے کے بعد مہوش حیات نے بھی اب وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے خبروں کو جھوٹا قرار دے دیا۔
مہوش حیات نے اپنی ٹوئٹ میں خود میں کورونا کی تشخیص کی خبر کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دیا۔
اداکارہ نے لکھا کہ وہ ایسی جھوٹی خبر کے بعد میڈیا سے بس یہی گزارش کریں گی کہ ایسی جھوٹی اور غیر مصدقہ خبریں شائع کرنے سے قبل انہیں فون کرکے تصدیق کی جائے تو اچھا ہوگا۔
مہوش حیات نے جھوٹی خبروں کے حوالے سے لکھا کہ ایسی خبروں سے مذکورہ شخص اور اس کے اہل خانہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسی افواہیں پھیلانے سے گریز کریں۔
اداکارہ نے لکھا کہ صرف اپنے فالوؤرز بڑھانے کے چکر میں کسی اور کے حوالے سے جھوٹی خبریں شائع کرنے سے گریز کیا جائے۔