• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، سمجھ نہیں آرہا محکمے کا کیا بنے گا، چیف جسٹس

شائع June 11, 2020
چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، ریلوے افسران بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ اہم عہدوں پر عارضی تقرریاں ہورہی ہیں، سمجھ نہیں آرہا ریلوے کا کیا بنے گا۔

چیف جسٹس گلراز احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریلوے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران ملازمین کے وکیل پیش ہوئے۔

دوران سماعت اپنے دلائل دیتے ہوئے ملازمین کے وکیل محمد رمضان نے بتایا کہ یہ ملازمین 20، 20 سال سے ریلوے میں کام کر رہے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ سارے کنٹریکٹ ملازمین تھے۔

مزید پڑھیں: محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی سے کی گئیں 845 تعیناتیاں معطل

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں یہ ملازمین ڈیلی ویجرز کی طرح تھے لیکن ریگولر پوسٹ کے خلاف کام کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ان لوگوں کے تقرر کے لیے اشتہار دیا گیا تھا، اس پر وکیل نے بتایا کہ نہیں اس کے لیے اشتہار نہیں دیا گیا۔

وکیل کی بات پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کا حشر اسی لیے خراب ہے، ہر چیز کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے لیکن ریلوے کے اندر کوئی طریقہ کار نہیں اس لیے ریلوے کا یہ حال ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی ایک کاغذ دکها دیں جس سے پتا چلے کہ یہ ریلوے کے ملازمین ہیں، اس پر وکیل نے کہا کہ ان کے سارے دستاویز ریلوے کے پاس جمع ہوتے ہیں، ریلوے ان لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان ملازمین کا کس پراجیکٹ کے لیے تقرر کیا گیا تھا، کچھ پتا نہیں چل رہا یہ کون تقرریاں کر رہا ہے، اسی لیے تو ریلوے کا یہ حال ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کل پھر ریلوے کے ڈبے پٹری سے اتر گئے، شکر ہے کسی کی جان نہیں گئی لیکن کروڑوں کا نقصان تو ہو گیا، سمجھ نہیں آرہا ریلوے کا کیا بنے گا۔

عدالتی ریمارکس و استفسار پر ریلوے کے نمائندے نے بتایا کہ مختلف سول محکموں کی تجویز پر ان ملازمین کا تقرر کیا جاتا ہے، یہ ملازمین ریلوے ٹریک پر گیٹ کیپر ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، اتنی اہم جگہ پر ریلوے عارضی لوگوں کو تعینات کر رہا ہے، آئے روز ریلوے میں حادثات ہو رہے ہیں، ریلوے کیسے ان لوگوں کی عارضی تقرریاں کر رہا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ریلوے افسران بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بیٹھے ہیں، ان اہم پوسٹس پر عارضی تقرریاں ہورہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت تها کہ اس کام کے لیے بڑے تجربہ کار لوگوں کو رکها جاتا تها۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، نہ وکیل کو کچھ پتا ہے نہ ہی ریلوے حکام کو کچھ معلوم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خدشہ ہے کہیں محکمہ ریلوے دیوالیہ نہ ہوجائے، شیخ رشید

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے میں سیکریٹری ریلوے کو کل (جمعہ) کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

یہاں یہ واضح رہے کہ ستمبر 2019 میں ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے بھی بھرتیوں کے نئے طریقہ کار کا آغاز ہوا تھا۔

اسی سلسلے میں قرعہ اندازی کے ذریعے 845 افراد کی تعیناتیاں کی گئی تھیں تاہم اس پر پاکستان ریلویز ایمپلائیز (پریم) یونین نے عدالت عالیہ سے رجوع کرلیا تھا۔

بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے پاکستان ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے 845 افراد کی تعیناتیاں معطل کردیں تھیں اور درخواست میں نامزد فریقین سے جواب طلب کرلیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024