جرمنی نے مغربی کنارے کے انضمام کے منصوبے پر اسرائیل کو خبردار کردیا
جرمنی کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اس کا مغربی کنارے کے انضمام کا منصوبہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگا۔
تاہم انہوں نے بتانے سے گریز کیا کہ اسرائیل کی جانب سے منصوبے پر عملدرآمد کی صورت میں جرمنی یا یورپ کا ردعمل کیا ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس ان دنوں یروشلم کے دورے پر ہیں جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد ان کا یورپ کے باہر پہلا دورہ ہے۔
ان کا یہ دورہ اسرائیلی منصوبے پر عملدرآمد سے چند ہفتے قبل ہو رہا ہے۔
اسرائیل کے مغربی کنارے کے انضمام کے منصوبے پر جرمنی سمیت اس کے قریبی اتحادیوں نے بھی کڑی تنقید کی ہے۔
جرمنی کا منصوبے کے حوالے سے کہنا ہے کہ یکطرفہ طور پر مشرق وسطیٰ کے نقشے میں تبدیلی لانے سے فلسطینی ریاست کے قیام اور دو ریاستی امن معاہدے کی باقی ماندہ امیدیں بھی ختم ہوجائیں گی۔
جرمنی کے وزیر خارجہ نے اسرائیلی ہم منصب گابی اشکینازی کے ہمراہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'جرمنی اور یورپی یونین، اسرائیلی منصوبے کے حوالے سے وضاحت چاہتے ہیں۔'
مزید پڑھیں: اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں کو ضم کیا تو آزاد ریاست کا اعلان کردیں گے،فلسطینی وزیراعظم
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یورپ، مغربی کنارے کے انضمام کو بین الاقوامی قانون کے خلاف سمجھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا یورپی یونین کے ساتھ بھی یہ معاہدہ ہے کہ ہم منصوبے کے تمام فریقین سے بات کریں گے، جبکہ میں نئی حکومت کے منصوبوں کی معلومات کے لیے اسرائیل میں موجود ہوں۔'
ہیکو ماس نے کہا کہ 'ہمارا اب بھی ماننا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل ہی صحیح راستہ ہے اور انضمام سے قابل قبول حل نہیں نکلے گا۔'
یورپی یونین پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ وہ انضمام کے خلاف ہے اور اسے بین الاقوامی قانون کے خلاف سمجھتی ہے۔
سفارت کار اسرائیلی حکام سے رابطے کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں یکطرفہ انضمام سے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکینازی نے کہا کہ 'منصوبے کو ذمہ داری سے آگے بڑھایا جائے گا اور ہم اس حوالے سے اپنے پڑوسیوں سے مذاکرات کا ادارہ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل، فلسطینی سرزمین کے انضمام کی باتیں بند کرے، متحدہ عرب امارات
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے آزاد فلسطین کے علاقوں تک توسیع کے انضمام کے منصوبے پر یکم جولائی سے کابینہ میں بحث شروع ہوگی۔
گزشتہ روز فلسطین کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں کو ضم کیا تو فلسطین مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تمام مغربی کنارے اور غزہ پر ریاست کا اعلان کردے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل یکم جولائی کے بعد یہ علاقے ضم کر لیتا ہے تو ہم فلسطینی اتھارٹی کے عبوری دور سے گزر کر ریاست کا تصور لے کر ابھریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فاؤنڈیشن کونسل ہوگی، آئین کا اعلان ہوگا اور فلسطین 1967 کی سرحدوں پر قائم ہوگا اور بیت المقدس اس کا دارالحکومت ہوگا۔
قبل ازیں فلسطینی صدر محمود عباس نے 23 اپریل کو کہہ چکے ہیں کہ اگر مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو فلسطینی حکام کے اسرائیل اور امریکا سے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا اور اسرائیلی حکومت سمیت متعلقہ بین الاقوامی فریقین کو آگاہ کردیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے کا انضمام کرنے کی کوشش کی تو ہم ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔
فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے بھی فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ
یاد رہے کہ چند ماہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی گئی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دوگنا ہوجائے گا'۔
اس منصوبے میں امریکا نے اسرائیل کو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل وادی اردن کو ضم کرنے کی بھی منظوری دی جو مغربی کنارے کا 30 فیصد علاقہ ہے جبکہ دیگر یہودی بستیوں کے الحاق کی اجازت بھی شامل ہے۔
منصوبے کے جواب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام بھیجا تھا۔
محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم کو خبردار کیا تھا کہ اب فلسطین، اوسلو کے معاہدے پر عمل درآمد سے آزاد ہے۔