شوگر ملوں کو دی گئی سبسڈی کی بنیاد ہی غلط تھی، شہزاد اکبر
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں لیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں دی گئیں سبسڈیز کی بنیاد ہی غلط تھی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے شوگر کمیشن سے متعلق معاملات کی منظوری دی تھی جو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے مجھے موصول ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو نکات تجویز کیے گئے تھے وہ بھی منظور کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی کابینہ نے منظوری دی گو کہ کابینہ نے وزیر اعظم کو اجازت دی تھی۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ 16صفحات پر مشتمل کارروائی کے نکات ہیں جس میں کمیشن کی روشنی میں جو تمام چیزیں کی جانی ہیں وہ شامل ہیں جس میں فوجداری مقدمات درج ہوں گے اور وصولی کے لیے ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے معاملات ہیں۔
مزید پڑھیں:وفاقی کابینہ نے اسٹیل ملز ملازمین کو فارغ کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 برسوں کی 29 ارب روپے کی سبسڈی کاجائزہ لیا گیا اور اس سبسڈی میں بنیادی خلا نظر آیا جبکہ سبسڈی دینا جرم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سب سبسڈیز میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ کوئی قانونی فیصلہ نہیں تھا اور جس بنیاد پر سبسڈی دی گئی تھی وہ بنیاد ہی غلط تھی۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کسان خوشحال نہیں کیونکہ گنا پہلے ہی سستا ہے اور حکومت جو قیمت مقرر کرتی ہے اس سے بھی 30 سے 35 فیصد کم قیمت گنے والوں کو ادا کی جاتی ہے جو اس کمیشن کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ برآمد کی مد میں جو شرط تھی ملوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اس کی روشنی میں 2014 سے 2019 کی سبسڈی کا جائزہ لیا گیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ سبسڈی سے متعلق کارروائی قومی احتساب بیورو (نیب) نے کرنی ہے جبکہ دوسری چیز ریکوری سے متعلق ہے جو وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) دیکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی
ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو کارپوریٹ فراڈ کے معاملات بھیجے ہیں، برآمد کی مد میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں وہ بھی شامل ہیں اور اس کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور وقت بھی متعین کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکموں کے اندر کے لوگ مل مالکان سے ملے ہوئے ہیں، فراڈ آڈٹ والوں نے جان بوجھ کر نہیں پکڑا لیکن ان تمام آڈٹ فرمز کو بلیک لسٹ کیا جائے گا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ ہم اپنے دور میں دی ہوئی 4 ارب روپے سبسڈی کی بھی انکوائری کر رہے ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ ایس ای سی پی، ایف بھی آر اور مسابقی کمیشن کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمتوں کو لے کر اصل قیمت کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے جو چینی کی قیمت کم کرے گی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ چینی اسکینڈل میں عام لوگوں کو 30 سے 40 روپے کا ٹیکا لگایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شوگر کمیشن کی تمام چیزیں آج نیب کو بھجوائی ہیں جو ریفرنس بنائیں گے، جس کے بعد ایف آئی اے، ایف بی ئر اور ایس ای سی پی کو دو سے تین دن میں بھجوائیں گے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر مل مالکان عدالت میں گئے ہیں لیکن ان سے تاخیر ہوگئی ہے کیونکہ کمیشن نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عدالت میں تمام ثبوت پیش کریں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں عملی اقدامات پر وزیرِ اعظم کی منظوری سے عمل درآمد شروع کیا جا چکا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ اس کارروائی کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ سزا اور ریکوری سے متعلق ہے جس میں سات مختلف اقدامات ہوں گے۔
مزید پڑھیں:اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا
شوگر اسکینڈل کے حوالے سے اقدامات پر بات کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 2014 سے 2019 کے دوران 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور بے نامی ٹرانزیکشنز کا معاملہ ایف بی آر کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو 90 دنوں میں کارروائی مکمل کرے گا۔
وفاقی کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ کمیشن نے صرف 9 ملوں کے معاملات کا جائزہ لیا تھا لیکن اب وزیرِ اعظم کے احکامات کی روشنی میں ایف بی آر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بقیہ 88 ملوں کے معاملات کا بھی جائزہ لے۔
اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ کارٹیلائزیشن کا معاملہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے حوالے کر دیا گیا جو 90 دنوں میں کارروائی مکمل کرے گا۔
بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ قرضے معاف کرانے، بینکوں کے پاس رہن شدہ اثاثوں کو بیچنے اور لون ڈیفالٹ کا معاملہ اسٹیٹ بینک کے حوالے کیا گیا ہے جو 90 دنوں میں اپنا کام مکمل کرے گا۔
وزیراعظم اور دیگر اراکین کو بتایا گیا کہ گنے کی قیمتوں اور متعلقہ صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ صوبائی حکومتوں کے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ چینی کی پیداواری قیمت کا تعین کرنے اور اس کی قیمتوں میں کمی لانے کے حوالے سے وزیر برائے صنعت و پیداوار کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو چینی کی قیمتوں میں کمی لانے کے حوالے سے اقدامات کے لیے سفارشات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پالیسی کی سطح پر اقدامات تجویز کرے گی۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شوگر انکوائری کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مکمل شفافیت اور عوام کے حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتی ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چینی کی قیمت میں ہر صورت کمی لائیں گے اور عوام دیکھے گی کہ حکومت کے سامنے صرف عوام کا مفاد مقدم ہے، یہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جنگ ہے جو بھی اس معاملے میں ملوث ہوگا ان کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔