سرکاری گھروں پر قبضے خالی کروانے کیلئے وزارت ہاؤسنگ کو آخری مہلت
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری گھروں پر قبضے خالی کروانے کے لیے وزارت ہاؤسنگ کو آخری مہلت دے دی۔
وفاقی دارالحکومت میں عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سرکاری گھروں پر قبضوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے وزارت ہاؤسنگ کی پیش کردہ رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر سیکریٹری ہاؤسنگ کی دستخط شدہ رپورٹ دی جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکم کے باوجود وزارت ہاؤسنگ نے تمام قابضین سے سرکاری رہائش گاہوں کو خالی نہیں کروایا۔
مزید پڑھیں: کراچی میں 4 ہزار ایک سو 68 سرکاری کوارٹرز پر قبضے کا انکشاف
چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ افسران ذاتی رہائش گاہیں ہونے کے باوجود سرکاری گھر الاٹ کروا لیتے ہیں، کئی سرکاری افسران نے گھر الاٹ کروا کے کرائے پر دے رکھے ہیں۔
اس موقع پر وزارت ہاؤسنگ کی رپورٹس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش کردہ رپورٹس جھوٹ پر مبنی ہیں، اس پر ایڈیشنل سیکریٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ ہر گھر کی تصدیق کروا کے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا، 52گھروں کو خالی کرواکے محکمانہ کارروائی شروع کر گئی ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ گھروں کی چانج پڑتال کے لیے 48 ٹیمز تشکیل دی گئیں تھیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری گھروں پرابھی بھی قبضہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگ ہمیں وزارت ہاؤسنگ سے متعلق شکایات بھجواتے رہتے ہیں، دردانہ کاظمی نامی خاتون کی جی 6 میں سرکاری رہائش پر قبضے کی شکایت موصول ہوئی ہے، سرکاری گھروں پر قبضے کو فوراً پولیس لے کر خالی کروائے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری رہائش گاہیں صرف سرکاری ملازمین کے لیے ہیں نجی لوگوں کے لیے نہیں، اگر وزارت ہاؤسنگ نے سرکاری رہائش گاہیں خالی نہ کروائیں تو آپ لوگ نوکریوں سے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت پر وقت لیا جاتا ہے لیکن کام نہیں کیا جاتا، 2 ماہ کے اندر کارروائی کرکے رپورٹ پیش کریں۔
اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم دکھا کر ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو بھی ختم کروائیں، جس پر وکیل سی ڈی اے نے کہا کہ اسلام پولیس نے سی ڈی اے کے گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے، اس پر جسٹس اعجاالاحسن نے کہا کہ یہ حکومت کا معاملہ ہے خود حل کروائیں۔
بعد ازاں کیس کی سماعت کو مزید 2 ماہ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
خیال رہے کہ سال 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مختلف محکموں کے افسران کی جانب سے بڑی سرکاری رہائش گاہیں رکھنے کا نوٹس لیا تھا۔
اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی یہ سرکاری رہائش گاہیں ملک کے اہم شہروں کے پوش علاقوں میں موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے تمام صوبائی چیف سیکریٹریز سے رپورٹ طلب کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا افسران کی بڑی سرکاری رہائشگاہیں رکھنے کا نوٹس
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں عدالت حکم پر کراچی سرکاری کوارٹرز خالی کروانے کی کوشش کی گئی تھی جس پر سخت احتجاج سامنے آیا تھا اور پولیس کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تھا۔
علاوہ ازیں یہ بھی واضح رہے کہ جولائی 2018 میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ کراچی میں 4 ہزار 168 سرکاری کوارٹرز پر قبضہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارٹن کوارٹرز میں 639 اور پٹیل پاڑہ میں 301 مکانوں پر قبضہ ہے، اسی طرح گارڈن اور پاکستان کوارٹرز میں 49 مکانوں پر قبضہ ہے۔