حکومت سندھ آج بھی اسٹیل ملز چلانے کے لیے تیار ہے، سعید غنی
سندھ کے وزیر تعلیم و محنت سعید غنی نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی صوبائی حکومت آج بھی اسٹیل ملز چلانے کے لیے تیار ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب اسٹیل ملز بند کی گئی اس وقت سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے واجبات 35 ارب روپے کے قریب تھے جس میں 17 ارب روپے گیس کے واجبات تھے اور 18 ارب روپے لیٹ سرچارج تھا کیونکہ جو ادائیگیاں ایس ایس جی سی کو نہیں کی گئی تھیں ان پر لیٹ سرچارج لگایا گیا تھا۔
سعید غنی نے کہا تھا کہ اس وقت ہم نے پریس کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ایس ایس جی سی کا مقصد یہ ہے کہ اسے واجبات مل جائیں تو وہ ادائیگی اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسٹیل ملز چلے، اگر اسٹیل ملز نہیں چلے گی تو گیس کا بل ادا نہیں کرسکتے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 برس بعد گیس کا 35 ارب روپے کا بل مئی 2020 میں 66 ارب 66 کروڑ روپے ہے، اس وقت تو یہ کہہ کر گیس بند کردی گئی تھی کہ ایس ایس جی سی چل نہیں پائے گا لیکن آج 5 برس بعد ایس ایس جی سی کا دعویٰ دگنا ہوگیا ہے لیکن ادائیگی نہیں ہوئی۔
مزید پڑھیں: اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے نجی شراکت قائم کرنا ضروری ہے، حماد اظہر
صوبائی وزیر نے کہا کہ اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ اسٹیل ملز کی گیس کو بند کرنے کا مسلم لیگ (ن) کا فیصلہ انتہائی نامناسب تھا اور اس ادارے کی تباہی کی جانب پہلا قدم تھا جس وقت اسٹیل ملز بند ہوئی میرا خیال ہے کہ اس کی پیدوارا اپنی 65 فیصد صلاحیت پر موجود تھی۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت کے اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو جون 2015 سے پہلے اسٹیل ملز کی پیداوار میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوا اور 65 فیصد پر آنے کے بعد وہ خسارے سے نکلنے کے قریب تھی اگر اسٹیل ملز اسی رفتار سے چلتی رہتی تو شاید اسی برس یا چند مہینوں میں وہ خسارے سے نکل آتی۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خسارے سے نکلنے کے بعد اسٹیل ملز اپنے ملازمین کی تنخواہیں خود دیتی، ایس ایس جی سی کے واجبات خود ادا کرنے کے قابل ہوجاتی لیکن عجیب منطق پیش کی گئی کہ ایس ایس جی سی کو واجبات چاہیئیں اس لیے گیس بند کردیتے ہیں جو اب تک ادا نہیں کیے گئے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت کے بقول گزشتہ 5 سال میں اسٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں 72 ارب روپے ادا کیے گئے، اگر 2015 میں 17 ارب روپے کا بل دے دیا جاتا تو نا یہ 72 ارب روپے خرچ ہوتے، نا گیس کا بل بڑھتا ، اسٹیل ملز کی یہ حالت نہ ہوتی اور وہ بحران سے نکل آتی۔
سعید غنی نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے کاندھے کو استعمال کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے مشاہدے کو جواز بنا کر پاکستان اسٹیل ملز کے ساڑھے 9 ہزار کے قریب ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ 2006 میں جب نجکاری کا فیصلہ ہوا تھا تو اس میں سپریم کورٹ نے اسٹیل ملز کی نجکاری کو روک دیا تھا لیکن اس فیصلے کی اہم چیز یہ تھی کہ پاکستان اسٹیل ملز کے متعلق حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اس کی منظوری سی سی آئی سے لی جائے گی۔
انہوں نے سوال کیا کہ حکومت نے جو بھی منصوبہ بنایا ہے کیا سی سی آئی سے اس کی منظوری لی ہے؟
سعید غنی نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اسٹیل ملز میں سیاسی بھرتیاں کیں جس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی، میں دعوے سے کہہ رہا ہوں کہ 2008 سے 2013 تک جب پیپلزپارٹی وفاقی حکومت میں رہی اس دوران ایک بھی شخص کو اسٹیل ملز میں بھرتی نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین فارغ کرنے کی منظوری
صوبائی وزیر محنت نے کہا کہ ہم نے اس ادارے میں موجود کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولرائز کیا اور پاکستان کے قانون کے مطابق یہ ملازم کا حق ہے کہ اسے ایک عرصے کے بعد مستقل کیا جائے، ہم نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے پہلے تقرر ہونے والے ملازمین کو مستقل کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ زیادہ آسان تھا کہ ان تمام لوگوں کو نکالتے اور اپنی مرضی کے لوگوں کو بھرتی کرتے ہم نے ایسا نہیں کیا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز سے متعلق جب بھی کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس میں توجہ کا مرکز اس کی زمین ہوتی ہے جس کی مالیت اربوں میں ہے، اگر صرف اسٹیل ملز کے پلانٹ کی مالیت نکالی جائے تو وہ بھی لگ بھگ 100 ارب ہوگی۔
مزید پڑھیں: حکومت کا اسٹیل ملز کے 8 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ
انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کی 19 ہزار ایکڑ کی مالک حکومت سندھ ہے اور اگر وفاقی حکومت نے سی سی آئی کی منظوری اور صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی فیصلہ کیا تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
سعید غنی نے کہا کہ ہم اسٹیل ملز سے ملازمین کو نکالنے کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
صوبائی وزیر نےکہا کہ اسد عمر نے بہت مرتبہ بہت سی باتیں کیں اور ایک مرتبہ اسٹیل ملز کے ملازمین سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ 'یہ میری تقریر ریکارڈ کرلو، اگر کل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آگئی اور اسٹیل ملز سے متعلق ایسا کوئی فیصلہ کیا تو میں اپنی حکومت کے ساتھ نہیں اسٹیل ملز کے مزدوروں کے ساتھ کھڑا ہوں گا'۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ کے ایجنڈے میں اسٹیل ملز سے متعلق فیصلہ بھی شامل ہے تو مجھے انتظار ہوگا کہ اسد عمر کابینہ کے اجلاس میں کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے لیکن انہیں کردار بھی ادا کرنا ہوگا کیونکہ وہ حکومت میں موجود ہیں مجھے اُمید ہے کہ ان کے وزرا کابینہ اجلاس میں اس فیصلے کی مزاحمت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اسٹیل ملز کو چلانے کی کتنی کوششیں کیں لیکن خسارے میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں اسٹیل ملز کی نجکاری کی کوشش کی جارہی تھی تب حکومت سندھ نے دلچسپی ظاہر کی تھی کہ اسٹیل ملز چلانے کے لیے تیار ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ حکومت سندھ آج بھی اسٹیل ملز چلانے کے لیے تیار ہے، ہم سے بات کی جائے اور ہم ضمانت دیں گے کسی ایک ملازم کو اسٹیل ملز سے نہیں نکالیں گے۔
علاوہ ازیں سعید غنی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو پاکستانیوں کی نظروں میں بدنام کرنے کے لیے ایک خاتون کو استعمال کیا جارہا ہے، جن کا شاید پورا ماضی ایسے کاموں سے بھرا پڑا ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ میں پاکستان کے میڈیا چینلز سے گزارش کرتا ہوں کہ ان حالات میں جب ملک میں لوگوں کو کورونا جیسی خطرناک وبا کا سامنا ہے جس کے باعث لوگوں کی ہلاکتوں اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو اس سے توجہ نہیں ہٹنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خاتون کے ذریعے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، ملک میں پیٹرول کی قلت ہے، آٹے کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے اور جھوٹے الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ آج پیپلزپارٹی ہے کل کوئی اور جماعت بھی ہوسکتی ہے ہمیں مسائل پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ وہ خاتون (سنتھیا رچی) کتنی سچی ہیں یہ وقت بتائے گا۔