ٹائیگر فورس اب ٹڈی دل سے نمٹنے، شجر کاری میں معاونت کرے گی، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی کووِڈ 19 ریلیف ٹائیگر فورس کو ٹڈی دل اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث شجرکاری مہم میں شامل ہونے کی ذمہ داری دے دی۔
ٹائیگر فورس کے حوالے سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں صرف 2 ملک تھے جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ کورونا کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں رضاکاروں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے رضاکاروں کی ضرورت تھی جو عوام میں جا کر کورونا وائرس سے بچاؤ کے طریقوں کے حوالے سے آگاہی دیں۔
'مساجد سے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا'
وزیراعظم نے یہ کہا کہ ہم واحد مسلمان ملک تھے جس نے یہ فیصلہ کیا کہ رمضان المبارک کے دوران مساجد کھلی رکھی جائیں گی اور اس سلسلے میں ایس او پیز پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ مخالفین نے بہت شور مچایا کہ مساجد بند کی جائیں کیونکہ وبا پوری دنیا میں پھیل گئی ہے لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ مساجد سے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا اور آج دنیا کے دیگر ممالک بھی ایس او پیز پر عمل کر کے مساجد کھول رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اب بھی عوام کو احتیاط کروائیں تو ہم اس مشکل وقت سے نہیں گزریں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک گزرے۔
وزیراعظم نے کہا کہ برازیل اور امریکا میں شرح اموات بہت بلند ہے لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان میں حالت خاصی بہتر ہے لیکن پھر بھی افسوس کی بات ہے کہ اتنی اموات ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو عوام میں شعور پیدا کرنا ہے، اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کورونا کے کیسز میں کمی آسکتی ہے۔
'ملک دوبارہ لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا'
ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس ہے اور اسے پھیلنا ہے ہم لوگوں کو کمرے میں بند نہیں کرسکتے کیوں کہ صرف اس صورت میں وائرس کا پھیلاؤ شاید رک جائے لیکن ہمارے جیسے ملک لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں شدید غربت کے باجود سخت لاک ڈاؤن لگایا گیا جس سے تباہی مچ گئی اور وہاں لوگ مر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو ریلیف پہنچایا ہے، اگر ہم یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پاکستان میں برا حال ہوجاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم لاک ڈاؤن کی جانب واپس نہیں جاسکتے، یہ ملک مزید لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم تھا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے پر دباؤ بڑھے گا اور پوری دنیا میں طبی عملے اس دباؤ کا شکار ہیں لیکن اگر ایس او پیز پر عمل کروایا گیا تو اس دباؤ میں کمی آسکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا اس کے باوجود ٹیکس ریونیو میں 8 کھرب روپے کی کمی آئی، اب تک ہم گزشتہ حکومتوں کے لیے گئے قرضوں پر 5 ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی کرچکے ہیں اس لیے ریونیو میں یہ کمی ہمارے لیے مشکلات کا سبب بنے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور اخراجات کم کرتے ہوئے آمدن بڑھانے کے طریقوں پر توجہ دینی ہوگی۔
'ٹائیگر فورس کو خصوصی کارڈ دیے جائیں گے'
وزیراعظم نے کہا کہ ٹائیگر فورس کو خصوصی کارڈز دیے جائیں گے اس کا فائدہ یہ ہے کہ انتظامیہ کو آپ کی شناخت معلوم ہوگی اور جو افراد بے روزگار ہوئے ان کی معلومات آپ حکومت کو فراہم کریں گے جبکہ ہم پہلے سے دی گئی معلومات پر کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے مزید 2 شعبوں میں ٹائیگر فورس کی ضرورت ہے جس میں ایک ٹڈی دل ہے جو 30 سال بعد پاکستان میں اس طرح حملہ آور ہوئی ہے، اس سلسلے میں آپ کو بتایا جائے گا کہ کس طرح آپ انتظامیہ کی معاونت کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ موسم گرم ہونے سے پاکستان کے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور ہمارے دریاؤں میں 80 فیصد پانی بھی یہاں سے آتا ہے جو وقت کے ساتھ کم ہوتا جائے گا، اس سلسلے میں ہم نے شجر کاری کی مہم شروع کی تھی جس میں اب ٹائیگر فورس کی مدد بھی لی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے میں برسات کے دوران شجر کاری کا نیا سلسلہ شروع ہوگا، اس میں ٹائیگر فورس کی مدد لی جائے گی تاکہ پاکستان کو ہرا بھرا کیا جاسکے اس سلسلے میں رضاکار ہمیں جگہوں کی نشاندہی بھی کریں گے۔
'مستقبل میں ٹائیگر فورس کو مزید ذمہ داریاں دی جائیں گی'
ساتھ ہی وزیراعظم نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو یہ ہدایت بھی کی کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دھیان دیں۔
ان کا کہنا تھا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند ہوئی جس کی وجہ سے اشیائے ضروریات کی فراہمی میں مشکلات پیش آئی نتیجتاً قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
لیکن ہم نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو 50 ارب روپے کے اضافی فنڈز دیے اور اشیا کی مسلسل فراہمی سے یہ قیمتیں اتنی بلند نہیں ہوئی جتنی ہوسکتی تھیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ٹائیگر فورس کو ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کر کے انتظامیہ کو آگاہ کرنا ہے، ہم نے ٹائیگر فورس عوام کے تحفظ کے لیے بنائی ہے جسے غریب عوام کی مدد کرنی ہے اور مستقبل میں ہم اس فورس کو مزید ذمہ داریاں دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں ڈھائی لاکھ میں سے صرف 35 ہزار رضاکار کام کرنے آئے جبکہ پاکستان میں 10 لاکھ افراد نے اندراج کروایا اور پونے 2 لاکھ رضاکاروں نے فرائض سرانجام دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کی بنیادی ذمہ داری ایس او پیز پر عمل کروانا ہے۔
یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ وزیراعظم کووِڈ 19 ریلیف ٹائیگر فورس میں 10 لاکھ 9 ہزار 975 افراد اپنا اندراج کروا چکے ہیں جس میں سب سے زیادہ رضاکار پنجاب سے شامل ہوئے جن کی تعداد 6 لاکھ 58 ہزار 467 ہے۔
دیگر صوبوں میں سندھ سے ایک لاکھ 56 ہزار 964 رضاکار، خیبرپختونخوا سے ایک لاکھ 45 ہزار783 رضاکار، بلوچستان سے 15 ہزار 263 رضاکار، وفاقی دارالحکومت سے 14 ہزار 284 رضاکار، آزاد کشمیر سے 12 ہزار 397 اور گلگت بلتستان سے 6 ہزار 492 رضاکاروں نے اپنا اندراج کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹائیگر فورس کے ہزاروں رضاکاروں کی ذاتی معلومات آن لائن لیک
قبل ازیں ایک ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امورِ نوجوان عثمان ڈار نے بتایا تھا کہ وزیراعظم ٹائیگر فورس کے نام اہم خطاب میں سماجی فاصلے اور کورونا آگاہی کی مہم کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے مزید اہم ذمہ داریاں تفویض کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ٹائیگر فورس نے رمضان المبارک کے دوران مساجد میں ایس او پیز پر عملدرآمد، راشن کی تقسیم، یوٹیلیٹی اسٹورز پر سماجی فاصلے، قرنطینہ مراکز میں، احساس کیش تقسیم کے مراکز میں مزدوروں کے اندراج کے حوالے سے بہترین کام کیا اس پر میں مبارکباد دیتا ہوں۔
یاد رہے کہ 30 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ' ٹائیگر فورس نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ کی مدد سے پورا کرے گی'۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
وزیراعظم نے کہا تھا کہ جن علاقوں میں لاک ڈاؤن لگایا جائے گا وہاں کھانا اور بنیادی ضرورت کی اشیا فراہم کرنا اور لوگوں کو قرنطینہ کے بارے میں آگاہی دینا اس فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ فورس ہر جگہ جا کر لوگوں کو آگاہی دے گی، اس میں نوجوان ڈاکٹر، نرسز، طلبہ، انجینئر، ڈرائیور، مکینک اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرسکتے ہیں اور حکومت خود اس کی نگرانی کرے گی'۔