عدالت نے این ایف سی کی تشکیل کیلئے ہونیوالی مشاورت کا ریکارڈ طلب کرلیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت سے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کی تشکیل کے لیے ہونے والی مشاورت کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
ہائی کورٹ کے جسٹس میناگل حسن اورنگزیب نے سابق وزیر دفاع خرم دستگیر کی جانب سے 10 ویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
عدالت میں وزارت قانون و انصاف کی جانب سے ایک صفحے پر مشتمل جواب جمع کروایا گیا جس میں اس بات کی وضاحت نہیں تھی کہ این ایف سی کی تشکیل سے قبل صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا یا نہیں۔
جس پر جسٹس مینا گل حسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خزانہ اور قانون کی نمائندگی کرنے والوں کو ہدایت کی کہ این ایف سی کی تشکیل کے لیے ہونے والی مشاورت کا مکمل ریکارڈ پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کا این ایف سی کا 'غیرقانونی' نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کے سامنے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا خط پیش کرنے کی اجازت طلب کی جس میں انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے این ایف سی کی تشکیل کے لیے مشاورت نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمیشن کے لیے ترتیب دیے گئے ٹی او آر بھی قانون سے متضاد ہیں۔
اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارت قانون اور وزارت خزانہ اس سلسلے میں جواب جمع کروادیں گے ساتھ ہی انہوں نے تفصیلی جواب جمع کروانے کے لیے عدالت سے مہلت بھی طلب کرلی۔
جس کے بعد کیس کی مزید سماعت 18 جون تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے ٹرم آف ریفرنسز (ٹی آر اوز) کی منظوری کے بعد وزارت خزانہ نے 11 رکنی قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'صوبوں سے اختیارات واپس نہیں لینا چاہتے،این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی ہونی چاہیے
کمیشن میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اپنے صوبوں کی نمائندگی کرنے والے 4 غیر حکومتی اراکین شامل ہوں گے جبکہ سیکریٹری خزانہ باضابطہ ماہر کی حیثیت سے کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہنواز رانجھا اور عمر گیلانی کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین کی دفعہ 160 کے تحت صدر نے نوٹیفکیشن جاری کیا جن کی ذمہ داری ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اور صوبائی وزیر خزانہ اور ان افراد پر مشتمل کمیشن تشکیل دیں جنہیں صوبوں کے گورنرز سے مشاورت کے بعد مقرر کیا گیا ہو۔
درخواست میں کہا گیا کہ کمیشن میں 2 قسم کے اراکین ہونے چاہیے ایک قانونی اراکین اور دوسرا متفقہ اراکین، قانونی اراکین وہ 5 اراکین ہوتے ہیں جن کی موجودگی کمیشن کے لیے لازم ہے جس میں وفاقی اور صوبائی وزرائے خزانہ شامل ہیں جبکہ متفقہ اراکین وہ ہوتے ہیں جنہیں گورنرز سے مشاورت کے بعد شامل کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ کسی بھی متفقہ رکن کو صدر اور صوبوں کے گورنرز (ان کی کابینہ کی تجویز) کے درمیان اس بات پر اتفاق ہونے پر شامل کیا جاتا ہے کہ اس رکن کی مہارت این ایف سی کے لیے ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جاوید جبار سیاسی مخالفت کے باعث این ایف سی ایوارڈ سے مستعفی
تاہم نافذ شدہ نوٹیفکیشن میں کسی بھی مشاورت کا ذکر نہیں جو صدر نے این ایف سے کے متفقہ اراکین کے لیے گورنرز کے ساتھ کی ہو جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشاورت کی ہی نہیں گئی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ صدر نے وزیراعظم کے مشیر خزانہ کو این ایف سی کے اجلاس کی سربراہی کا اختیار دیا۔
مذکورہ درخواست کے مطابق صدر اور گورنر اپنی کابینہ یا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تجویز پر عمل کے پابند ہیں اور نافذ شدہ نوٹیفکیشن میں ایسی کسی تجویز کا ذکر نہیں تھا۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ چنانچہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسی کوئی تجویز لی ہی نہیں گئی بالخصوص ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا تقرر اس بات پر یقین کی وجہ ہے کہ کسی بھی صوبائی کابینہ سے مشاورت نہیں کی گئی۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ 12 مئی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔