پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ہراسانی کی شکایات میں 189 فیصد اضافہ
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے پاکستان میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران ان کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن پر شکایات میں 189 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 'کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد پاکستان میں لاک ڈاؤن کا آغاز مارچ میں ہوا، جس کے بعد ہمیں خدشہ تھا کہ آن لائن ہراسانی کے کیسز میں بالخصوص اور سائبر حملوں میں بالعموم اضافہ ہوگا۔'
ملک میں 'ڈیجیٹل آزادی' کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے کہا کہ اسے مارچ اور اپریل میں لاک ڈاؤن کے دوران سائبر ہراسانی کی کُل 136 شکایتیں موصول ہوئیں جو جنوری اور فروری کے مقابلے میں 189 فیصد زائد ہیں۔
لاک ڈاؤن سے قبل تنظیم کو جنوری اور فروری میں اور آن لائن ہراسانی کی 47 شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ مارچ اور اپریل میں موصول شکایتوں میں سے 74 فیصد خواتین نے کیں جبکہ مردوں کی طرف سے 19 فیصد شکایتیں موصول ہوئیں۔
لاک ڈاؤن کے عرصے میں تنظیم کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کو جو بیشتر شکایات موصول ہوئیں وہ غیر متفقہ طور پر کسی کی معلومات، ذاتی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے کے ذریعے بلیک میل کرنا ہے۔
تنظیم نے کہا کہ اس عرصے میں اسے نفرت انگیز مواد پوسٹ کرنے، دھوکہ دہی، جعلی پروفائلز اور ہتک عزت کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔
ڈجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں صنفی تشدد جیسے ہی مسائل کا سامنا ہے جن میں جنسی ہراسانی، نگرانی، ذاتی ڈیٹا کا غیر مجاز استعمال اور اسے پھیلانا اور ذاتی معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شامل ہے۔
تنظیم نے پالیسی سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اس حوالے سے سفارشات کی فہرست بھی جاری کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'یہ سفارشات ان مسائل سے متعلق ہیں جو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دائرہ کار میں آتے ہیں، جبکہ اس سے متعلق بھی ہیں کہ ڈیجیٹل ہراسانی کے کیسز ڈیل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کا کیسے استعمال کیا جائے، جیسا کہ ویڈیو گواہی کی اجازت دینا شامل ہے۔'