جسٹس عیسیٰ کیس: 'قانون دکھادیں کہ جج کو اپنی اور اہلخانہ کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے'
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کا معاملہ زیر سماعت ہے اور اس میں آج بھی حکومتی وکیل فروغ نسیم سے عدالتی بینچ نے مختلف سوالات کیے ہیں وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کی ہیں۔
ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے کہا کہ قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد کو ظاہر کرنا ضروری ہے؟ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لیے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔
علاوہ ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا وجہ تھی کہ وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: حکومتی وکیل نے 'گمشدہ' دستاویز عدالت میں پیش کردی
اس معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔
بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاقی کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔
اس کیس کی گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالت نے حکومتی وکیل سے 4 سوالوں پر جواب طلب کیے تھے جبکہ فروغ نسیم نے ساتھ ہی ایک 'گمشدہ' دستاویز پیش کرکے سپریم کورٹ کو بھی حیران کردیا تھا کیونکہ اسی کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بدعنوانی پر مبنی پورا صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا لیکن یہ دستاویز نہ تو ریفرنس اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے پاس موجود تھا۔
آج (بروز بدھ) اس معاملے کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو حکومتی وکیل فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں عدالتی سوالات کا جواب دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھوں گا۔
فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ 10 اپریل 2019 کو عبدالوحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔
واضح رہے کہ صحافی عبدالوحید نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) میں 10 اپریل 2019 کو ایک درخواست دائر کی تھی۔
اپنے دلائل دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ 8 مئی کو عبدالوحید ڈوگر نے لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا، جس میں لندن کی جائیدادوں کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر قانون فروغ نسیم ایک مرتبہ پھر اپنے عہدے سے مستعفی
اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ فروغ نسیم یہ بتائیں لندن کی جائیدادوں کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں، وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا، اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالت کے تمام سوالات کے جوابات میرے پاس ہیں، اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی، عدالت کو سب بتاؤں گا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ 1988 کے بعد برطانیہ میں ہر جائیداد کا ریکارڈ اوپن ہے اور اے آر یو کو قانون کی مدد حاصل ہے۔
مقدمے میں جسٹس عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں، جسٹس عمر عطا
اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں، بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے، اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الزام ہے کہ لندن کی جائیداد ظاہر نہیں کی گئی، جو ظاہر کرنا چاہیے تھی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے۔
حکومتی وکیل کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی جائیداد ظاہر نہیں کی، معزز جج کی اہلیہ نے 2014 میں اپنی آمدن 9285 روپے ظاہر کی جبکہ 2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی جائیداد خرید سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 2011 اور 2013 میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔
ایف بی آر نے خوف کے باعث جج کے خلاف کارروائی نہیں کی، فروغ نسیم
جس پر بینچ کے ایک اور رکن جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
فروغ نسیم کی بات پر پھر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کاروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔
اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہر ایک کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا حق ہے، مقدمے کے حوالے سے ہر ایک چیز کا جائزہ لیا جائے گا، کسی نقطہ کو بغیر جائزہ لیے نہیں چھوڑا جائے گا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں۔
اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے میں کسی چیز کو شارٹ کٹ نہیں کیا جاسکتا، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کا پتہ کیسے چلا؟
اسی دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ کہا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کی اسپلینگ نہیں آتی تو جب نام کی اسپیلنگ درست نہیں ہوگی تو ویب سائٹ پر کیسے سرچ ہوسکتا ہے؟
اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہی ہوتے ہیں، جسٹس مقبول باقر
بینچ اراکین کے مختلف استفسار کے دوران ہی جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ وحید ڈوگر کس میڈیا کے لیے کام کر رہے ہیں؟ ان کا ماضی کیا ہے، ان کی کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام کا آغاز کر دیا گیا، کیا وحید ڈوگر کو غیب سے معلومات ملتی تھیں؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہی ہوتے ہیں۔
اسی دوران فروغ نسیم نے صدارتی ریفرنس اور فیض آباد دھرنے کے کیس کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے دوسرے جج کے خلاف بھی ریفرنس فائل کیا ہے، انہوں نے تو دھرنے کا فیصلہ نہیں دیا۔
یہاں یہ مدنظر رہے کہ اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دیے گئے دھرنے کے کیس کا فیصلہ دینے والے بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے اور ان کی جانب سے فیصلے میں سخت ریمارکس سامنے آئے تھے۔
اس پر جسٹس مقبول باقر نے حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا وجہ تھی کہ وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا۔
جسٹس مقبول باقر نے دوہرایا کہ کیسے ایک تاثر موجود ہے کہ ایک مخصوص فیصلے (دھرنے کے فیصلے) نے کچھ حلقوں کو ناراض کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ حلقے خوش نہیں تھے اور یہاں تک کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی اپیل میں جج کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، اسی فیصلے کے باعث پوری وفاقی حکومت اور اثاثہ جات وصولی یونٹ نے جج کے خلاف کسی ضابہ اخلاق کی خلاف ورزی کی نشاندہی کے بغیر ریفرنس دائر کرنے کے لیے معلومات جمع کرنا شروع کیں۔
جسٹس مقبول باقر نے یاد دلایا کہ یہ الزام کبھی نہیں لگایا گیا کہ لندن میں 3 جائیدادیں حاصل کرنے میں استعمال کی گئی رقم غلط ذرائع سے حاصل کی گئی تھی یا جج کی اہلیہ اور بچے ان پر منحصر تھے۔
سماعت کے دوران حکومت کے وکیل اور سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے مؤقف اپنایا کہ منی لانڈرنگ ایک سنگین جرم ہے اور جج کو وہ ذرائع بتانے چاہئیں جن کے ذریعے آف شور جائیدادیں خریدی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جج عدلیہ کی آزادی کے چہرے کے پیچھے چھپ رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے جاری شوکاز نوٹس پر اپنے جواب میں جائیدادوں کے ذرائع کے علاوہ ہر چیز بیان کی تھی لیکن انہوں نے جائیدادوں کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کیا تھا۔
جس ہر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ مخصوص حالات میں منی لانڈرنگ کا اپنا ایک نظام ہے لیکن شاید یہاں سب غائب ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ اے آر یو نے انکوائری کے آغاز سے قبل لازمی کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہوں گی کیونکہ یہ حساس معاملہ ہے اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، انہوں نے اے آر یو کی حیثیت سے متعلق بھی استفسار کیا۔
اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ غیرملکی جائیداد کو ٹرسٹ کے ذریعے چھپایا گیا، جس پر فروغ نسیم بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں۔
مزید پڑھیں: پی بی سی کا انور منصور، فروغ نسیم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی پر زور دینے کا عندیہ
اس جواب پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ اگر پیسے بینکوں کے ذریعے گئے ہیں تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی؟
فروغ نسیم کی جواب دینے والی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ جواب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دیں؟ ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے یہ سوال اٹھایا کہ ایف بی آر میں انکم ٹیکس کا معاملہ کس مرحلے میں ہے؟
اسی کے ساتھ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ پوچھا کہ کیا ایف بی آر کا غیرملکی جائیداد ظاہر کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے؟ جس کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا کہ جج کے بچے ٹیکس استثنیٰ کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
جس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ کیا یہ ٹیکس چوری کا مقدمہ ہے؟ اس پر انہیں حکومتی وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جوڈیشل کونسل کے سامنے جج کا مقدمہ ہے۔
بھارت کے قانون کو چھوڑیں پاکستان کی بات کریں، جسٹس عمر عطا
فل کورٹ کی سربراہی کرنے والے جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس میں موجود ٹیکس کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بظاہر متفق تھی کہ سپریم کورٹ کے جج نے ٹیکس قوانین کی تعمیل نہیں کی لیکن عدلیہ کے وقار اور جج سے زیادہ ججز کے لیے ضابطہ اخلاق سے متعلق زیادہ تشویش ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر جج کی جانب سے نامعقولیت، بے ایمانی یا بدعنوانی کا الزام ہو یا کوئی ایسی چیز جس نے لوگوں کے ضمیر کو مجروح کیا ہو تو یہ ادارہ زخمی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم شیشے کے گھر میں رہتے ہیں اور لوگوں کی جانچ پڑتال کا نشانہ بنتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 209 تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان لوگوں سے ججز کا دفاع کرتا ہے جو چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے لیے ججز کو شرمندہ کرنا چاہتے ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مشاہدہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2009 کے انکم ٹیکس گوشوارے میں 3 کروڑ 70 لاکھ روپے کی آمدن ظاہر کی تھی اور 2011 میں بھی ان کے پاس کافی رقم تھی کیونکہ وہ اس وقت ایک کامیاب وکیل تھے لہٰذا حکومت کے پاس ناجائز رقم کی واضح مثال لازمی ہونی چاہیے جیسی ہم کیسز میں دیکھتے ہیں جہاں لوگوں نے ٹرسٹ کی آڑ میں اپنی جائیدادوں کو چھپایا۔
انہوں نے حکومتی وکیل سے وجہ دریافت کی کہ ریفرنس کیوں دائر کیا گیا تھا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ بھارت میں جج کی اہلیہ اور بچوں کے نام اثاثے تھے، تحقیقات شروع ہوئیں تو بھارت کے جج نے استعفیٰ دے دیا، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بھارت کے قانون کو چھوڑیں پاکستان کے قانون کی بات کریں، کیا پاکستان کے قانون میں جج پر جائیداد ظاہر کرنے کی پابندی نہیں ہے؟
اسی پر فروغ نسیم نے دوسری بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے زرعی زمین پر زرعی ٹیکس دیا اس کا ریکارڈ نہیں ہے، جسٹس قاضی فائز نے الزامات کا جواب دینے کے بجائے آزاد عدلیہ کے پیچھے چھپنے کا سہارا لیا۔
حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ریفرنس کی کارروائی کو زیر بحث لائیں، صدر مملکت نے جب ریفرنس کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟
ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس کے حوالے سے معلومات خود حاصل نہیں کی، اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج منی ٹریل دے دیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے یہ سوال کیا کہ کیا قانون کے تحت جج منی ٹریل دینے کے پابند ہیں؟
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ سوال پر آتے نہیں ہیں اور قانون بھی نہیں دکھا رہے ہیں؟
10 رکنی فل کورٹ کے ججز کی جانب سے حکومتی وکیل سے ایک کے بعد ایک سوالات کیے جاتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کا وزیراعظم سمیت نامور ملکی شخصیات پر آف شور کمپنیز بنانے کا الزام
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ انکم ٹیکس کا نوٹس جج کی اہلیہ کو جاری کیا گیا، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جج کہتا ہے کہ جائیدادوں کا مجھ سے نہیں متعلقہ لوگوں سے پوچھیں۔
اسی دوران جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ ایمنسٹی اسکیم کا حوالہ دلائل میں کیوں دیا گیا، ساتھ ہی ان کی بات آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس منصور نے کہا کہ اس مقدمے سے ایمنسٹی کا تعلق کیا ہے، کیا جج نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج نے ایمنسٹی اسکیم سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔
حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد کو ظاہر کرنا ضروری ہے؟ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لیے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔
عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں عدالت کے سوالات کے جواب دوں گا پہلے مجھے حقائق بیان کرلینے دیں۔
طویل سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ نے پوچھا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس مسترد کر سکتی ہے، کیا سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل ریفرنس کو مسترد کر سکتی ہے۔
عدالتی فیصلوں کے تحت کونسل ریفرنس پر صدر کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکتی، جسٹس عمر
اسی پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جوڈیشل کونسل صدر مملک کے ریفرنس پر ایسی ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے تو کیا جوڈیشنل کونسل کی ڈیکلیئریشن اور آبزرویشن کے نتائج نہیں ہوں گے؟
عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے کہا کہ آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے سفارشات دینی ہوتی ہیں، اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے تحت جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے، ٹیکس قانون کا آرٹیکل 116 زیر کفالت کی بات کرتا ہے، کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔
تحریری معروضات طلب
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس کی بدنیتی اور اے آر یو کی قانونی حیثیت پر سوالات پوچھے گئے ہیں، اگر صدارتی ریفرنس میں نقص ہے تو کونسل سوموٹو (ازخود) کارروائی کر سکتی ہے۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر کارروائی کی پابند ہے، فرض کرلیں یہ ایک کمزور ریفرنس ہے، جس کے پس پردہ مقاصد ہیں تو کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے؟ کیا کونسل ریفرنس میں کمی، کوتاہی نظر انداز کر کے کارروائی کرسکتی ہے؟
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اے آر یو نے کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے؟
بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرلیں اور سماعت کو کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں حکومت کو کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا حکم
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔