• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نیوزی لینڈ میں 11 روز سے کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا

شائع June 2, 2020
ملک کی سرحدوں کی بندش قائم رہے گی، جیسنڈا آرڈرن — فائل فوٹو / اے ایف پی
ملک کی سرحدوں کی بندش قائم رہے گی، جیسنڈا آرڈرن — فائل فوٹو / اے ایف پی

نیوزی لینڈ میں 11 روز سے کورونا وائرس کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا جس کے بعد ملک میں وبا کے باعث عائد تمام پابندیاں آئندہ ہفتے ختم کیے جانے کا امکان ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک آئندہ ہفتے الرٹ لیول ون کی طرف جاسکتا ہے، یعنی سماجی فاصلے سے متعلق تمام اقدامات اور عوامی اجتماعات پر عائد پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سرحدوں کی بندش قائم رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'ہماری سخت لیکن جلدی اقدامات کی حکمت عملی کے بہترین نتائج سامنے آئے جبکہ چند کیسز میں ہماری امید سے زیادہ اچھی نتائج ملے۔'

ان کا کہنا تھا کہ تمام پابندیاں ختم کیے جانے سے متعلق حتمی فیصلہ کابینہ 8 جون کو کرے گی، جس کا اجلاس پہلے 22 جون کے لیے شیڈول تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ کا کورونا کے خلاف جنگ میں فتح کا اعلان

نیوزی لینڈ میں مسلسل 11ویں روز کورونا وائرس کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے، جبکہ ملک میں وبا کا صرف ایک فعال کیس موجود ہے۔

اس کی بڑی وجہ ملک میں تقریباً 7 ہفتوں تک سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے، جس دوران بیشتر کاروبار بند رہے اور ضروری ورکرز کے علاوہ تمام لوگوں کو گھروں میں رہنا پڑا۔

جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ 'ہم دنیا کے وہ پہلے ملک ہوں گے جہاں زندی اتنی جلدی معمول پر آجائے گی۔'

گزشتہ روز نیوزی لینڈ کے ہزاروں شہریوں نے سماجی فاصلے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف مارچ کیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ بھی سیاہ فام کی ہلاکت پر 'خوفزدہ' ہیں، تاہم مظاہرین نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ میں مسلسل دوسرے روز بھی کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا

یورپی ممالک میں لاک ڈاؤن میں مزید نرمی

دوسری جانب یورپ کے بھی بیشتر ممالک نے لاک ڈاؤن میں مزید نرمیوں کا اعلان کیا ہے اور کئی ممالک میں سیاحت کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

تقریباً دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد یکم جون سے یورپی ممالک میں لوگوں کو پھر بازاروں اور ریسٹورنٹ میں لطف اندوز ہوتے دیکھا گیا، جبکہ متعدد میوزیم اور پارکس بھی کھل گئے تاہم سماجی فاصلے کے اصول و ضوابط پر عمل کیا جا رہا ہے۔

امریکا میں مظاہروں کے باعث وبا میں اضافے کا خدشہ

امریکا میں جاری احتجاجی مظاہروں کے باعث طبی ماہرین نے کورونا وائرس کی وبا میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بیشتر مظاہرین ماسک پہن کر نکلتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وائرس کے پھیلنے کے خدشات موجود ہیں۔

امریکا میں مختلف ریاستوں میں لاک ڈاؤن میں نرمیاں کی جارہی ہیں حالانکہ ملک میں وائرس پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں ٹرمپ کے فوج بھیجنے کے اصرار کے بعد فسادات میں مزید شدت

ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 18 لاکھ 17 ہزار سے زائد ہوچکی ہے، جبکہ ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 63 لاکھ 18 ہزار سے زائد ہے جبکہ 3 لاکھ 77 ہزار سے زائد افراد وبا سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024