جسٹس عیسیٰ کیس: حکومتی وکیل نے 'گمشدہ' دستاویز عدالت میں پیش کردی
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر سینئر جج کی درخواست پر سماعت کے بعد وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سابق وزیر قانون فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب طلب کرلیے۔
ساتھ ہی ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے منگل کو وہ دستاویز پیش کرکے سپریم کورٹ کو حیران کردیا جس کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بدعنوانی پر مبنی پورا صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا لیکن یہ دستاویز نہ تو ریفرنس اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے پاس موجود تھا۔
یہ وہی دستاویز تھی جس کی غیر موجودگی سے متعلق درخواست گزار کئی مہینوں سے دریافت کررہے تھے جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر وفاقی حکومت نے بدنیتی کا الزام لگایا گیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
اس معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: وزیر قانون فروغ نسیم ایک مرتبہ پھر اپنے عہدے سے مستعفی
بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا۔
جس کے بعد آج اس مذکورہ معاملے کی دوبارہ سماعت ہوئی، تاہم اس سماعت کے آغاز ہونے سے ایک روز قبل ہی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جسٹس عیسیٰ کیس میں وفاق کی نمائندگی کریں گے۔
اس سلسلے میں آج جب سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں سماجی فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ عدالت میں لوگ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کے بیٹھیں۔
جسٹس عیسٰی کے وکیل کا فروغ نسیم پر اعتراض
بعد ازاں سماعت کے آغاز میں سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے پیش ہوکر کہا کہ میں وفاق اور شہزاد اکبر کی نمائندگی کررہا ہوں تاہم جسٹس عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن سینئر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم کا بڑا احترام ہے لیکن ان کی جانب سے وفاق کی نمائندگی پر اعتراض ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم کو پیش ہونے کے لیے اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا، رولز وفاقی حکومت کو نجی وکیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل آفس سے کوئی سرکاری وکیل پیش ہونے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے۔
منیر اے ملک نے فروغ نسیم کے بطور وکیل پیش ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں آپ سے کہوں گا کہ اعتراض نہ اٹھائیں اور کیس کو آگے بڑھنے دیں، ویسے بھی موسم گرما کی تعطیلات شروع ہونے والی ہیں، ہم کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ میں نے تحریری طور پر عدالت کو اعتراضات سے آگاہ کردیا ہے، تمام اعتراضات آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے قوائد کے مطابق ہیں، عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا عدالت خود اعتراضات دیکھ لے۔
یہ بھی پڑھیں: پی بی سی کا انور منصور، فروغ نسیم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی پر زور دینے کا عندیہ
اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ان کے اوپر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں، رشید احمد کیس میں اس سے متعلق وضاحت ہوچکی ہے۔
فروغ نسیم کی بات پر منیر اے ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی نمائندگی اور دفاع کا حق حاصل ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سابق اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے استعفیٰ کے بعد فروغ نسیم پیش ہو رہے ہیں، منیر اے ملک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑیں۔
گرمیوں کی تعطیلات سے قبل سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، جسٹس عمر عطا
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ مناسب فیصلے تک پہنچنے کے لیے ہمیں معاونت درکار ہے، گرمیوں کی تعطیلات سے قبل اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، مناسب ہوگا آپ اپنے اعتراضات واپس لیں بصورت دیگر ہم فیصلہ دیں گے۔
اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ملک میں نافذ قانون پرعمل ہونا چاہیے،یہ انصاف اور شفافیت کا مقدمہ ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مطلوبہ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔
ان کی اس بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ ریکارڈ پر لے کر آئیں، سرٹیفکیٹ کے ریکارڈ پر آنے کے بعد فیصلہ کریں گے۔
دوران سماعت اس معاملے کے بعد جب کیس سے متعلق دلائل شروع ہوئے تو فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تحریری درخواست کی زبان پر اعتراض ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم آپ مقدمے کے میرٹ پر بات کریں، درخواست میں کیا کہا گیا ہے اسے چھوڑیں۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اس حقیقت کو درخواست گزار تسلیم کر چکے ہیں، لہٰذا عدالت کے سامنے آرٹیکل 209 کے تحت یہ جج کے مس کنڈکٹ کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں، منی ٹریل کہاں ہے، پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ معزز جج کی معاشرے میں بڑی عزت و تکریم ہے، جس پر فل کورٹ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں، پہلے یہ بتائیں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہیں؟
جسٹس عیسیٰ کے بچے اور اہلیہ ان کے زیر کفالت ہیں تو ثابت کریں، جسٹس یحییٰ
اس کے جواب میں سابق وزیر قانون نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے کہ جائیدادیں ان کی نہیں ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرا بیٹا اگر کوئی جائیداد خرید لیتا ہے تو کیا اس کا جواب دہ میں ہوں گا؟
ساتھ ہی بینچ کے ایک اور رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچے اور اہلیہ ان کے زیر کفالت ہیں تو ثابت کریں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ بچے اور اہلیہ زیر کفالت نہیں تو درخواست گزار پر ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کن وسائل سے جائیدادیں خریدیں۔
فروغ نسیم کے مطابق جوڈیشل کونسل ریفرنس کا جائزہ لے کر مسترد کرسکتی ہے تاہم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل اور معزز جج کو سننے کے بعد شو کاز (اظہار وجوہ کا) نوٹس کیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شوکاز نوٹس کی اپنی اہمیت ہے لیکن درخواست میں بدنیتی کا الزام بھی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معزز جج کے وکیل نے شوکاز نوٹس پر دلائل دینے میں ہچکچکاہٹ دکھائی، منیر اے ملک نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے۔
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ شاید منیر اے ملک نے بدنیتی پر پہلے دلائل دینا مناسب سمجھا۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کا وزیراعظم سمیت نامور ملکی شخصیات پر آف شور کمپنیز بنانے کا الزام
اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ سابق چیف جسٹس کو بغیر شوکاز نوٹس کے جوڈیشل کونسل نے کیسے طلب کیا، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کو شوکاز نوٹس نہیں جاری کیا گیا۔
شوکاز نوٹس سے ریفرنس پختہ ہوگیا، فروغ نسیم
فروغ نسیم نے سابق چیف جسٹس کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ریفرنس میں شوکاز نہیں ہوا تھا تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے میں شوکاز نوٹس جاری ہوا، جس کے بعد ریفرنس پختہ ہوگیا۔
اس پر بینچ کے ایک اور رکن جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ ریفرنس کس طرح سے تیار ہوا، ریفرنس کا مواد کیسے اکٹھا ہوا، سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں۔
جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کے ریفرنس میں آرٹیکل 209 کی پیروی نہیں کی گئی جبکہ موجودہ صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 209 پر مکمل عمل کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شوکاز کا جواب دینے کے بجائے اس پر درخواست دائر کردی گئی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معزز جج کہتے ہیں کہ منی ٹریل اور وسائل کا بچوں اور اہلیہ سے پوچھا جائے۔
اسی دوران بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کرکے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے؟
وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس قاضی امین
ساتھ ہی جسٹس قاضی امین نے بھی یہ بات کہیں کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے؟ کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟
طویل سماعت میں ایک اور جج جسٹس منیب اختر نے فروغ نسیم سے پوچھا کہ آپ دلائل سے جو کیس بتا رہے ہیں وہ ریفرنس سے مختلف ہے، آج آپ انکم ٹیکس قانون کی بنیاد پر کیس بتا رہے ہیں جبکہ ریفرنس میں انکم ٹیکس قانون کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کا کام ہے کہ ریفرنس خارج کرے یا منظور کرے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہونے کے نقطے پر دلائل دیں، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آئینی درخواست میں ریفرنس پر بحث علمی حیثیت کی ہوگی۔
سابق وزیر قانون کے جواب پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فروغ نسیم آپ کی اس دلیل سے میں اتفاق نہیں کرتا، بظاہر لگتا ہے کہ آپ شوکاز نوٹس پر کیس کرنا چاہتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ شوکاز نوٹس سے قبل ریفرنس محض کاغذ کا ٹکڑا تھا۔
جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس سے قبل ریفرنس کی تیاری کا عدالتی جائزہ ہوسکتا ہے، اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ درخواست گزار کا الزام ہے کہ ریفرنس کی پوری کارروائی غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے، پہلے مرحلے پر اس معاملے پر دلائل دینا مناسب ہو گا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہر ایکشن یا حکم قانون کے مطابق ہونا چاہیے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد آرٹیکل 211 کا اطلاق ہو جاتا ہے، آرٹیکل 211 کے اطلاق کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہوسکتی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں بیان: انور منصور اور فروغ نسیم کے ایک دوسرے پر الزامات
وفاق کی نمائندگی کرنے والے فروغ نسیم کی بات پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم آپ کی یہ دلیل نہ مانیں تو پھر کیا آپ ریفرنس کی تیاری کے مراحل پر دلائل نہیں دینگے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ریفرنس کی تیاری پر دلائل دوں گا۔
اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ پھر سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اتنی بحث میں کیوں پڑ رہے ہیں اصل نقطے پر آتے آتے آدھا گھنٹہ لگ گیا، جس پر سابق وزیر قانون نے کہا کہ مجھے نقطہ اختتام پر وفاق کی نمائندگی کا کہا گیا۔
'گمشدہ' دستاویز عدالت میں پیش
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوران سماعت فروغ نسیم نے وہ دستاویز پیش کرکے سپریم کورٹ کو بھی حیران کردیا جس کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بدعنوانی پر مبنی پورا صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا لیکن یہ دستاویز نہ تو ریفرنس اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے پاس موجود تھا۔
فروغ نسیم نے اس کا ملبہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے اس دستاویز کو آن ریکارڈ نہ رکھنے میں ان کے دفتر سے کوئی بھول چوک ہوئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں وفاقی حکومت کی جانب سے مصروف عمل ہوئے تھے اور جب کیس کا جائزہ لیا تو وہ دستاویز طلب کرنا پڑی۔
اس حوالے سے جب ڈان نے سابق اٹارنی جنرل انور منصور سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس موقع پر کوئی بیان نہیں دیں گے۔
یہ مطلوبہ دستاویز غالباً ایک ثبوت ہے جسے صحافی عبدالوحید ڈوگر نے اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) میں 10 اپریل، 2019 کو دائر کی گئی شکایت کے ساتھ منسلک کیا تھا۔
اس دستاویز میں آف شور جائیدادوں سے متعلق برطانیہ کی لینڈ رجسٹری ظاہر کی گئی جس سے متعلق خیال کیا گیا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کی زیر ملکیت ہیں۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک جو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری سے بذریعہ ویڈیو لنک سماعت میں شریک تھے، انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست گزار کے پاس تاحال اس دستاویز کی کاپی موجود نہیں۔
دوران سماعت جسٹس مقبول باقر مقبول نے یاد دلایا کہ اس حوالے سے طویل دلائل دیے گئے تھے کہ عبدالوحید ڈوگر کے دعوے کی حمایت میں کوئی دستاویز موجود نہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی بھی اس سے انکار کرنے نہیں آیا تھا۔
جسٹس مقبول باقر نے نشاندہی کی کہ جسٹس قاضی عیسیٰ کے کیس کی میڈیا کی جانب سے بڑے پیمانے پر کوریج کی گئی لہذا حکومت کو اس اختلاف سے متعلق علم ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی وضاحت کے لیے کوئی آگے نہیں آیا۔
علاوہ ازیں جسٹس سجاد علی شاہ نے یاد دہانی کروائی کہ ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے صرف یہ نشاندہی کرنے کے لیے 2 دن صرف کیے کہ اگر یہ دستاویز دستیاب کردی جائے تو اس سے ظاہر ہوگا کہ کہ پورا ریفرنس کس بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وکیل نے ہمیں برطانیہ سے جائیداد کی دستاویزات جمع کرنے کا طریقہ کار زبانی یاد کرادیا تھا۔
علاوہ ازیں وحید ڈوگر کے معاملے پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو وحید ڈوگر کی شکایت کی نقل درخواست گزار جج کو فراہم کرنی چاہیے تھی، وحید ڈوگر کی شکایت کی دستاویزات کا دس مرتبہ عدالت نے پوچھا، میڈیا پر کئی بار دستاویزات دکھائی گئیں لیکن عدالت کو نہیں دی گئیں۔
اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کیا ہے؟ پہلے یہ بتائیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ تک کیسے پہنچی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ وحید ڈوگر نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو درخواست دی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ غلطی سے یہ دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کروا سکے، اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت اس معاملے پر غلطی پر ہے، شکایت کو ریکارڈ پر لائے بغیر اس کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں۔
دریں اثنا پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے جج ایڈووکیٹ افتخار گیلانی نے اس مرحلے پر دستاویز پیش کرنے پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ' ہم اس دستاویز کے لیے بھیک مانگ رہے تھے لیکن ہمیں فراہم نہیں کیا گیا تھا لہذا اب اسے نہیں دیکھنا چاہیے'۔
عدالت کے سوالات
بعد ازاں عدالت کی جانب سے فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب طلب کرلیے گئے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ یہ الزام ہے کہ مواد غیرقانونی طریقے سے اکٹھا ہوا، آپ نے مواد کو غیرقانونی اکٹھا کرنے پر دلائل دینے ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کیں؟
ساتھ ہی فروغ نسیم سے عدالت نے سوالات کیے کہ شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی؟ اور شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی؟ ان سوالات کے جوابات دینے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تیاری کے لیے مزید 12 گھنٹوں کا وقت دے رہے ہیں، جس کے ساتھ ہی مذکورہ معاملے کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں حکومت کو کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا حکم
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔