ہندوستان میں 29ویں ریاست تلنگانہ کے قیام کا اعلان
نئی دہلی: کل بروز منگل 30 جولائی کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک طویل اجلاس کے بعد ایک قرار داد منظور کی، جس کے مطابق مرکزی حکومت کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کے مطابق علیحدہ ریاست تلنگانہ کی ایک متعینہ مدت میں تشکیل کے لیے اقدامات کرے۔
کانگریس نے حکومت سے یہ بھی سفارش کی ہے کہ آندھراپردیش کے دارالحکومت کو حیدرآباد کو 10 سال کی مدت تک نئی مجوزہ ریاست کا بھی مشترکہ دارالحکومت بنایا جائے۔
آندھراپردیش کے 23 اضلاع میں سے 10 اضلاع کو الگ کرکے نئی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ تلنگانہ ہندوستان کی 29 ویں ریاست ہوگی۔
آندھرا پردیش کی ریاست کے انڈیا کی لوک سبھا یا قومی اسمبلی کے 42 حلقوں میں سے تلنگانہ کے حصے میں 17 حلقےآئیں گے۔ جبکہ آندھراپردیش کی ریاستی اسمبلی 294 نشستوں پر مشتمل ہے، جس میں سے 119 حلقے تلنگانہ کو ملیں گے۔
ریاستی دارلحکومت حیدرآباد میں دو ریاستوں کے گورنر ہوں گے۔ دو اسمبلی اور دو سکریٹریٹ ہوں گے البتہ اس کا انتظام ریاست تلنگانہ کے نظم و نسق کے تحت رہے گا۔
تلنگانہ کے نام سے علیحدہ ریاست کے مطالبے کے حوالے سے کئی دہائیوں تک چلنے والی تحریک میں بہت سے اُتار چڑھاؤآئے۔ ریاست کے قیام کے نام پر بہت سے سیاسی اتحاد بنے اور ٹوٹ گئے۔ کہا جارہا ہے کہ کانگریس نے سیاسی اور اقتصادی حالت کے لحاظ سے دور رس سوچ کے بجائے اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کو مدّنظر رکھتے ہوئے تلنگانہ کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔
انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرو نے زبان کی بنیاد پر ریاستوں کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسی ریاستیں قومی یکجہتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں اور اس سے علیحدگی پسندی کو فروغ مل سکتا ہے۔
پچاس کی دہائی کے دوران زبان کی بنیاد پر ریاستوں کے قیام کے لیے جو تحریک چلی تھی، اس میں آندھرا پردیش کا اہم کردار تھا۔ مدراس صوبے کو تقسیم کرکے تیلگو زبان بولنے والے لوگوں کے لیے الگ ریاست بنانے کا مطالبہ سب سے زیادہ مضبوط تھا۔
اس مطالبے کی بنیاد پر بھوک ہڑتال کرنے والے ایک مقامی رہنما کی ہلاکت کے نتیجے میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو مدراس کی تقسیم کے مطالبے کے سامنے جھکنا پڑگیا تھا۔
واضح رہے کہ جغرافیائی طور پر تلنگانہ تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار مربع کلو میٹر تک پھیلا ایک ایسا خطہ ہے جو 1948ء تک نظام دکن کی ریاست کا حصہ تھا۔ نظام کی ریاست حیدرآباد پر انڈیا کے قبضے کے بعد اس ریاست کے تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ایک حصے کو ریاست کرناٹک اور دوسرے کو ریاست مہاراشٹرا میں شامل کردیا گیا، جبکہ تیسرے حصے کو تلنگانہ کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بنا دیا گیا۔اس حصے میں تیلگو زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ برگلا رام كرش راؤ تلنگانہ ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔
جواہرلعل نہرو کی حکومت کی جانب سے ریاستوں کی تشکیل نو کے لئے بنائے گئے فضل علی کمیشن نے تلنگانہ کو ایک علیحدہ ریاست بنائے رکھنے کی سفارش کی تھی۔ جبکہ آندھرا کے علاقے کے رہنماؤں کا دباؤ تھا کہ تیلگو قوم کے لوگوں کے لیے آندھرا، رائل سيما اور تلنگانہ کو ملا کر ایک ہی ریاست بنادی جائے، مرکز نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا۔
تلنگانہ ریاست یکم نومبر 1956ء کو ختم ہو گئی جبکہ دہلی کی مرکزی حکومت نے تمام علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کے نام سے ایک ریاست کی تشکیل دے دی۔ لیکن تلنگانہ کے لوگوں نے کبھی بھی دوسری اقوام کے ساتھ اپنے اس اختلاط کو دل سے قبول نہیں کیا۔
تلنگانہ ریاست کے حامیوں کی دلیل یہ تھی کی آندھرا اور تلنگانہ کی زبان، ثقافت اور لوگوں کے مزاج میں بہت زیادہ فرق ہے۔ انہوں نے عام لوگوں میں یہ خوف بھی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آندھرا کے طاقتور لوگ ان کے ساتھ ناانصافی کریں گے۔
انہی خدشات کے پیش نظر نہرو حکومت نے آندھرا اور تلنگانہ کے علاقے کے رہنماؤں کے درمیان ایک جینٹل مین ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدہ کروایا تھا، جس میں مقامی تلنگانہ باشندوں کے حقوق کے تحفظ کے بہت سی شقیں رکھی گئی تھیں۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ آندھرا اور تلنگانہ علاقوں پر سرکاری آمدنی کا کتنا حصہ خرچ کیا جائے گا۔
لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع ہونے لگی۔ تلنگانہ کے لوگوں کو شکایت تھی کہ ان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے، ان کو ملازمتیں نہیں دی جارہی ہیں، ریاستی آمدنی کا بڑا حصہ آندھرا میں خرچ کیا جا رہا ہے اور دریاؤں کے پانی سے بھی اسی علاقے کو سیراب کیا جارہا ہے۔
اس کے بعد جنوبی اور مغربی ہندوستان میں زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل ہوئی تھی، کنڑ، مليالم، مراٹھی اور گجراتی زبانیں بولنے والے لوگوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ریاست بنائی گئیں۔ اس کے بعد پنجاب اور ہریانہ کی ریاستیں بھی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوئیں۔
ہندوستان کی 40 فیصد آبادی ہندی بولتی ہے اور ہندی بولنے والے شمال اور مشرق کی کئی ریاستوں میں پھیلے ہیں، ہندی کو چھوڑ کر انڈیا کی زیادہ تر اہم زبانیں کسی نہ کسی ریاست کی اہم زبان ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہندی بولنے والوں کے خطے میں کئی نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا ہے، لیکن اُن کی تشکیل میں زبان ایسا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
2000ء کے دوران جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کے نام سے ریاستوں کی تشکیل ہوئی۔ اور اتر پردیش کے پہاڑی ضلعوں کو ملا کر اتراکھنڈ ریاست بنائی گئی ۔
ہندی زبان بولنے والوں کے خطے میں پسماندہ ذاتوں کی سیاسی بیداری کی وجہ سے بڑی ریاستوں کو قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ان ریاستوں میں پہلے اوپری ذاتوں کا دبدبہ ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں سیاسی مرکزیت کو ضم کرنے کے لیے نئی ریاستوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
تلنگانہ کے معاملے میں بھی ریاستی تحریک لسانی بنیاد سے نکل کر سیاسی عزائم بن گئی تھی۔
تلنگانہ ریاست کا مطالبہ 1960ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا اور 1970 کی دہائی کے آغاز میں علاقائی تعصب کو بنیاد بنا کر دوبارہ زندہ کیا گیا۔ بعد میں اس تحریک کے ساتھ کئی دیگر مسائل بھی جُڑتے چلے گئے۔ ہندوستان میں ہونے والی اقتصادی اصلاحات کے بعد اُبھرنے والی اقتصادی تبدیلیوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔
آج آندھر پردیش ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد میں دنیا بھر سے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ بھارت میں فیس بک کا نیا ہیڈکوارٹر اسی میگا شہر میں قائم ہے۔ جغرافیائی طور پر حیدرآباد تلنگانہ خطے میں واقع ہے لیکن اس کا دیہی علاقوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہندوستان میں نئی ریاستوں کی تشکیل کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صرف ریاست کی تشکیل علاقائی عدم مساوات کے مرض کا علاج نہیں ہے۔ نئی ریاست کے قیام کے بعد نئی حکومت کے انتخاب، نیا انتظامی ڈھانچے کی تشکیل، آمدنی کا حصول اور مرکزی حکومت کے ساتھ بات کرنے کی مشکل چیلنج بن کر سامنے آجاتی ہے۔
علیحدہ ریاست کی تشکیل کے مطالبے پر چلائی جانے والی تحریکوں کا واحد مقصد تو علیحدہ ریاست ہی حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن اس ہدف کی تکمیل کے بعد بھی کئی طویل مدتی اہداف سامنے آجاتے ہیں۔
تلنگانہ اور آندھراپردیش کے مشترکہ دارالحکومت حیدرآباد کے انتظامی معاملات کو چلانا بھی ایک بڑا چیلنج بنے گا۔ جس طرح یہ شہر ترقی کررہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ یہ اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔ جغرافیائی طور پر یہ شہر تلنگانہ میں آتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا جائے۔
ہندوستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب مرکزی حکومت کو نئی ریاست بنانے کے لیے غیر منقسم ریاست کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کانگریس نے اس الزام کو رد کیا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ وقتی سیاسی فوائد کو مدّنظر رکھ کر کیا ہے، کانگریس کے ترجمان یہ مطالبہ طویل عرصے سے کیا جارہا تھا اور اس کی بنیاد پر ہونے والے فسادات میں بہت سی جانیں بھی ضایع ہوئی تھیں۔
ہندوستان کی مرکزی حکومت آندھرا پردیش کی حکومت سے درخواست کرے گی کہ وہ ریاستی اسمبلی میں نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی قرارداد منظور کرے۔