پی بی سی کا انور منصور، فروغ نسیم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی پر زور دینے کا عندیہ
پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواست کی 2 جون کو ہونے والی سماعت میں سابق اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کے الزامات کو پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کو ہونے والی اس کیس کی سماعت کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کا 10 رکنی بینچ سماعت کرے گا اس میں وفاقی حکومت کی نمائندگی سابق اے جی عرفان قادر کریں گے۔
مذکورہ کیس کی 24 فروری کو ہونے والے آخری سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے وفاقی حکومت کو نیا وکیل کل وقتی وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی کیوں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور وزیر قانون اس کیس میں حکومت کی پیروی نہیں کررہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں بیان: انور منصور اور فروغ نسیم کے ایک دوسرے پر الزامات
عدالت نے کہا تھا کہ اگر حکومت نیا وکیل مقرر نہ کرسکی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن حکومت کی نمائندگی کریں گے۔
تاہم عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا چونکہ وزیر قانون فروغ نسیم اس کیس میں نامزد ہیں اس لیے وہ فل کورٹ کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ جسٹس عیسیٰ نے 29 مئی کو عدالت میں جمع کروائی گئی تازہ درخواست میں بھی وزیر قانون کو فریق بنایا ہے جس میں انہوں نے سوالات کے ذریعے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے چیئرمین شہزاد اکبر کی اسناد کو چیلنج کیا ہے۔
درخواست گزار کی پیروی کرنے والے وکیل منیر اے ملک کئی مہینوں سے عدالت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کرنے کا حکم دے۔
مزید پڑھیں: سابق اٹارنی جنرل نے اپنے بیان پر سپریم کورٹ سے 'غیر مشروط' معافی مانگ لی
دوسری جانب امکان یہ ہے کہ جب عرفان قادر عدالت میں حکومت کی جانب سے پیش ہوں گے تو وہ اس پورے کیس کا جائزہ لینے کے لیے کچھ وقت مانگ سکتے ہیں۔
قبل ازیں 18 ستمبر 2019 کو 7 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا تاہم درخواست گزار کے اعتراض پر دو ججز جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الحسن کے بینچ سے دستبردار ہونے کے بعد فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔
اس حوالے سے پاکستان بار کونسل کے چیئرمین عابد ساقی نے ڈان کو بتایا کہ وہ 2 جون کو سماعت میں پیش ہوں گے اور سابق اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے خالدف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کریں گے۔
خیال رہے کہ توہین عدالت کی درخواست اس وقت دائر کی گئی تھی جب انور منصور نے جسٹس عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کے دوران قابل اعتراض بیان دیا تھا جس کا عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے بیان واپس لینے کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدر عابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے 'غیر معمولی طرز عمل' پر استعفے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے بعد اٹارنی جنرل مستعفی بھی ہوگئے تھے۔
متنازع بیان
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے۔
فروری کے مہینے میں اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کے وکیل اپنے دلائل دے چکے تھے اور حکومتی مؤقف کے لیے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے تھے، جس پر انہوں نے 18 فروری کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اٹارنی جنرل انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی
18 فروری کو دلائل دینے کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔
اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔
اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز' تھا۔
ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔
تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔
بعد ازاں 20 فروری کو انور منصور خان نے اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا۔