توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت جج اصغر علی نے کی، اس دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی احتساب عدالت میں پیش ہوئے تاہم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے عدالت میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
دوران سماعت قومی احتساب بیورو (نیب) استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ میاں نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا پر طلبی کے سمن کی تعمیل کی گئی تھی۔
عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ ریفرنس میں نامزد سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا جائے۔
مزید پڑھیں: نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری توشہ خانہ کیس میں طلب
انہوں نے عدالت میں ملزمان کے طلبی کے سمن کی تعمیلی رپورٹ بھی پیش کی اور بتایا کہ طلبی کے نوٹس کے باوجود نواز شریف عدالت سے غیر حاضر رہے۔
دوران سماعت آصف علی زرداری کے وکیل ایڈووکیٹ اسد عباسی نے حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی اور بتایا کہ ان کے موکل علیل ہیں۔
تاہم اس درخواست کی ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے مخالفت کی اور کہا کہ ملزم کو عدالتی سمن کی تعمیل کروا چکے ہیں جس کے باوجود ملزم عدالت سے غیر حاضر ہے۔
انہوں نے بھی عدالت سے کیس میں ملزم نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں زیر علاج ملزم نے وہاں پر سمن وصول نہیں کیے جس پر وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں زیر علاج ملزم کو سفر کرنے کی اجازت نہیں، ملزم پیش ہو تو اس کی حاضری لگا کر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ جب چیئرمین نیب نے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے تو نیب پراسیکوٹر کیسے گرفتاری کا کہہ سکتے ہیں۔
اس موقع پر احتساب عدالت کے جج اصغر علی نے نشاندہی کی کہ آصف علی زرداری کے سمن کی تعمیل چوکیدار سے کروائی گئی ہے جس پر نیب استغاثہ کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے قوانین کے مطابق ملزم کے ملازم کو سمن کی تعمیل کروا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کا طلبی کا سمن وصول کیا گیا ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو ملزمان آج پیش ہوئے ہیں صرف ان کی حاضری لگے گی۔
اس پر سابق صدر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آصف علی زرداری اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
تاہم اس موقع پر نیب نے آصف زرداری کی میڈیکل رپورٹس پر بھی اعتراض اٹھایا جس پر سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ ’نیب نے رپورٹ دیکھے بغیر ہی اعتراض کردیا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب کا نیا ریفرنس دائر
اس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ’ملزم کی ایک حاضری لازمی تھی‘، ساتھ ہی نیب نے عدالت سے استدعا کی کہ ’آصف زرداری کی آج حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کی جائے، ایک ملزم جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار ہے انہیں سپرنٹنڈنٹ جیل کے ذریعے لایا جائے‘۔
جس پر عدالت نے سوال کیا کہ ’میاں نواز شریف کی طرف سے عدالت میں کون پیش ہوا ہے‘ جس پر نیب استغاثہ کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے کوئی بھی پیش نہیں ہوا ہے'۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نوٹس وصول ہونے کے باوجود نواز شریف پیش نہیں ہوئے۔
بعد ازاں عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنی کی درخواست منظور کرلی اور کہا کہ آصف زرداری آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں۔
مزید برآں عدالت نے آصف زرداری سمیت تمام ملزمان کو 11 جون کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔
اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نےستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007) اور لیبیا سے (بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کی۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔
مزید پڑھیں: نیب کا آصف زرادری کے خلاف 8 مقدمات میں الزامات ثابت ہونے کا دعویٰ
نیب ریفرنس میں الزام ہے کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔
نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔
نیب نے عدالت سے درخواست کی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔
خیال رہے کہ نواز شریف طبی بنیاد پر علاج کے لیے لندن میں ہیں جبکہ آصف علی زرداری ضمانت پر رہا ہیں۔