شفاف انکوائری میں وزیر اعظم قانون سے بالاتر نہیں، مرتضیٰ وہاب
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ چینی پر بنے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے چینی کی برآمدات میں 2 ارب روپے کے فریٹ سپورٹ فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔
کراچی میں وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے سال 2020، 2019 اور 2018 میں کوئی سبسڈی نہیں دی تھی، ’ہماری حکومت آخری سبسڈی دسمبر 2017 میں دی گئی تھی اور اس وقت چینی کی قیمت کم ہوئی تھی جبکہ آج اس کی فی کلو قیمت 80 روپے ہوگئی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 سے جنوری 2020 تک پاکستان میں چینی کا بحران ہوا جس سے منافع خوروں نے فائدہ اٹھایا۔
مزید پڑھیں: چینی پر سبسڈی سے متعلق مقدمات دائر کیے جائیں گے، معاون خصوصی
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اس پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ’اس انکوائری رپورٹ کو بنانے میں ایک مرتبہ بھی وزیر اعلیٰ سندھ کو طلب نہیں کیا گیا جبکہ کمیٹی نے 2019 کی قیمتوں کو دیکھا جو ظاہر کرتا ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کا کوئی عمل دخل نہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں اس رپورٹ کو ان کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کے تحت فرانزک کا حکم دیا گیا جس کے 40 روز تک وزیر اعلیٰ سندھ کو کوئی نوٹس نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ 11 مئی کو مراد علی شاہ کو نوٹس ملا جس پر انہوں نے کمیٹی کے سامنے نہ جانے کا فیصلہ کیا اور دو مرتبہ ملنے والے نوٹسز پر دونوں مرتبہ جواب دیا کہ یہ آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ درآمد اور برآمد کا اختیار صرف وفاق کے پاس ہے، ای سی سی نے دس لاکھ ٹن چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) میں چینی برآمد کرنے کے لیے سمری پیش کرنے کی منظوری دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ برآمد کاروں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
بعد ازاں انہوں نے بتایا کہ 3 دسمبر 2018 کو وزارت تجارت و کامرس نے ایک اور سمری بھیجی جس میں کہا گیا کہ دس لاکھ ٹن کو بڑھا کر گیارہ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور فنانس ڈویژن 2 ارب روپے فریٹ سپورٹ کے جاری کرے اور اس میں لچک کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس سمری کو رزاق داؤد نے منظور کیا جس کے بعد وزیر اعظم اور وزیر تجارت نے بھی اس کی منظوری دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کو بنیاد بناتے ہوئے ای سی سی نے فریٹ سپورٹ کے 2 ارب روپے جاری کیے تھے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اس ہی کی بنیاد پر اپنے صوبے میں سبسڈی دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق شوگر ایڈوائزری بورڈ نے قیمتوں میں اضافے کی نشاندہی کی مگر اس پر وفاق کی جانب سے کچھ نہیں کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان کے پاس اتنے شواہد ہیں کہ چینی کی برآمدات قیمتوں میں اضافے کی وجہ بنی، جب ان کے پاس اس کے شواہد تھے تو انہوں نے وزیر اعظم کو خط کیوں نہیں لکھا، انہیں اس معاملے پر طلب کیوں نہیں کیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’شفاف انکوائری میں وزیر اعظم قانون سے بالاتر نہیں، انہیں مدعو کرکے ان سے سوال جواب کرنے چاہیے تھے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان سب چیزوں سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے اور شفاف تحقیقات کے لیے وزیر اعظم عمران خان سے بھی سوال و جواب ہونے چاہیے‘۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا
اس موقع پر سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت نے سبسڈی عام کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے دی تھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چینی کی عالمی قیمت کم ہونے اور بر آمد نہ ہونے پر سبسڈی دی جاتی ہے‘۔
چینی بحران رپورٹ
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔
بعد ازاں 5 اپریل کو وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 25 اپریل کو اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
تاہم فرانزیک رپورٹ میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر اسے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے عوام کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔
رپورٹ کے سامنے آنے پر اپوزیشن نے اسے مسترد کردیا تھا جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں چینی پر ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی پر مقدمات درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔