ہانگ کانگ میں سیاسی بحران: چین کےخلاف احتجاج پر 300 افراد گرفتار
ہانگ کانگ میں پولیس نے چین کی جانب سے قومی سلامتی کے متنازع قانون کے خلاف جاری مظاہروں اور جھڑپوں کے دوران کم از کم 300 افراد کو گرفتار کرلیا۔
واضح رہےکہ چین نے اپنے سالانہ پارلیمانی اجلاس میں ہانگ کانگ کے لیے قومی سلامتی کے قانون کی تجویز پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
مزید پڑھیں: ہانگ کانگ میں پولیس کی احتجاج کرنے والے شخص پر براہ راست فائرنگ
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پولیس نے مظاہرین اور ہجوم پر کالی مرچ کے اسپرے کیے، طلبہ سمیت مکینوں کو روکا اور تلاشی لی اور مشتبہ مظاہرین کو گرفتار کیا۔
منصوبہ بندی کے تحت ہونے والے مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں ہزاروں مسلح پولیس اہلکار سڑکوں پر موجود تھے۔
مظاہرین چین کے قومی ترانے کی تضحیک اور مجوزہ قانون کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے قانون ساز کونسل کی عمارت کے آس پاس سڑکوں پر بیٹھ گئے اور آمد و رفت معطل کردی۔
واضح رہے کہ مذکورہ کونسل میں قانون ساز چین کے ترانے کے قانون پر بحث و مباحثے کر رہے تھے۔
احتجاج کے منتظمین نے سوشل میڈیا پر لوگوں کو ’پانی‘ کی صورت میں پورے شہر میں چلتے رہنے کی تاکید کی۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا ہانگ کانگ میں سخت سیکیورٹی قوانین لانے کا مطالبہ
انہوں نے اعتراف کیا کہ گرفتاری کے خطرے کے بغیر ترانے سے متعلق متنازع قانون پر بحث کو روکنا مشکل ہوگا لیکن آپ کم از کم بیان دے سکتے ہیں۔
بعد ازاں دوپہر کے کھانے کے بعد مظاہرین دوبارہ جمع ہوگئے اور مونگ کوک میں اسکول کے بچوں سمیت 180 افراد کو حراست میں لیا گیا
دوسری جانب پولیس نے مظاہرین پر ملبے کو نذر آتش کرنے اور اہلکاروں پر اشیا پھینکنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ انہوں نے متعدد نوجوانوں کو پیٹرول بم اور ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
اس دوران ہجوم نعرے لگا تے رہے کہ ’ہانگ کانگ کی آزادی واحد حل ہے‘۔
ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ سخت سیکیورٹی کی وجہ سے مظاہرین اب حسان پلیس میں جمع ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہانگ کانگ حکومت جھکنے پر مجبور، ملزمان حوالگی کے متنازع قانون سے دستبردار
74 سالہ خاتون نے کہا کہ 'یقیناً، مجھے اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہم کو مجبور کر رہے ہیں۔'
خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا جس کے بعد سے چین نے یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کی ہے۔
اس ضمن میں 'ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ' اخبار نے ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ قوانین علیحدگی پسند، غیر ملکی مداخلت، دہشت گردی اور تمام تر اشتعال انگیز سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ہوں گے جس کا مقصد مرکزی حکومت کو گرانے اور سابق برطانوی کالونی میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو روکنا ہے۔
چین میں خارجہ امور کے نائب وزیر نے کہا تھا کہ نئی صورتحال اور تقاضوں کے تحت نئے اقدامات ضروری ہیں اور بعض فیصلے قومی سطح پر لینا بہت ہی ضروری ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب غیر سرکاری تنظیم 'ہانگ کانگ واچ' کے ڈائریکٹر جانی پیٹرسن نے کہا تھا کہ ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیکیورٹی سے متعلق قانون سازی کا فیصلہ ’بے مثال اور انتہائی متنازع مداخلت ہے‘۔
خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا جس کے بعد سے چین نے یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کی ہے۔