لیبیا: کوسٹ گارڈز نے سیکڑوں مہاجرین کو گرفتار کرلیا
لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے گزشتہ دو روز میں بحیرہ روم کے ساحل سے 400 یورپ جانے والے تارکین وطن کو گرفتار کرکے انہیں دارالحکومت طرابلس کے قریب جیل منتقل کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ویب سائٹ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی ترجمان صفا مسیہلی نے بتایا کہ مہاجرین کو طرابلس کے مغرب میں قایم زویا نامی ٹاؤن کے الناصر حراستی مرکز لے جایا گیا ہے۔
لیبیا میں اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی نے بتایا کہ روکے گئے 315 افراد میں سے دو افراد کی موت واقع ہوگئی جنہیں پیر کے روز علی الصبح طرابلس واپس لایا گیا۔
مزید پڑھیں: ترک سرحد پر موجود ہزاروں تارکین کی موجودگی سے یونان کو تشویش
انہوں نے بتایا کہ مرنے والوں کی لاشیں سمندر سے برآمد ہوئی ہیں۔
اس سے قبل تقریبا 85 دیگر تارکین وطن کو لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے خراست میں لیا تھا جس کے بعد سمندر پار کرنے کی کوشش کرنے والے حراست میں لیے گئے مہاجرین کی کل تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی۔
صفا مسیہلی نے کہا کہ لیبیا سے غیر قانونی طور پر سمندر پار کرنے کی کوشش کرنے والے افراد ککی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ’تلاشی اور ریسکیو آپریشنز میں تیزی ہے‘۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے بحری امداد فراہم کرنے والے اہم خیراتی اداروں نے مہاجرین کے لیے امدادی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔
یہاں تک کہ سفر میں رکاوٹوں نے اقوام متحدہ کے مہاجر اور نقل مکانی کرنے والی ایجنسیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کے لیے اپنی آبادکاری کے اقدامات ترک کریں۔
یہ بھی پڑھیں: یونان کے قریب 44 تارکین وطن ڈوب گئے
شمالی افریقی ممالک سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے ہزاروں افراد کی طرابلس میں وبائی مرض کے پھیلاؤ سے پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔
اہم ٹرانزٹ پوائنٹ
لیبیا جہاں 2011 میں فسادات کے اور حکومت کے گرنے اور طویل عرصے تک وہاں حکمرانی کرنے والے معمر گدافی کے قتل کے بعد یہ ملک افریقہ اور عرب عوام کے جنگ اور غربت سے بھاگ کر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے کے لیے مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
آئی او ایم کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے اب تک بحیرہ روم کو پار کرنے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔
حالیہ سالوں میں یورپی یونین نے کوسٹ گارڈ اور دیگر لیبیا کی فورسز ککے ساتھ شراکت کرکے مہاجرین کے ریلے کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان اقدامات ہجرت کی کوشش کرنے والے فوج کے رحم و کرم پر آگئے ہیں جنہیں ایسے حراستی مراکز میں قید کیا جاتا ہے جہاں انہیں مناسب غذا اور پانی بھی نہیں ملتا۔