• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

'تباہ شدہ طیارے کا آخری معائنہ 21 مارچ کو ہوا، ایک روز قبل مسقط سے آیا تھا'

شائع May 23, 2020 اپ ڈیٹ May 24, 2020
طیارے کے انجن، لینڈنگ گیئر یا ایئر کرافٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی—تصویر: اے ایف پی
طیارے کے انجن، لینڈنگ گیئر یا ایئر کرافٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی—تصویر: اے ایف پی
انجینئرنگ اینڈ مینٹیننس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق طیارے کے انجنز کی حالت اطمینان بخش تھی —فوٹو: اے ایف پی
انجینئرنگ اینڈ مینٹیننس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق طیارے کے انجنز کی حالت اطمینان بخش تھی —فوٹو: اے ایف پی

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے انجینئرنگ اینڈ مینٹیننس ڈیپارٹمنٹ نے گزشتہ روز کراچی میں حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے ایئربس اے-320 کی تکینکی معلومات سے متعلق سمری جاری کردی۔

خیال رہے کہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب آبادی میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے حادثے میں 91 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے جن میں سے 97 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 2 افراد محفوظ رہے جو ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

سمری کے مطابق طیارے کو رواں سال 21 مارچ کو آخری مرتبہ چیک کیا گیا تھا اور تباہ ہونے والے طیارے نے حادثے سے ایک دن قبل اڑان بھری تھی اور مسقط میں پھنسے پاکستانیوں کو لاہور واپس لایا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی ایئرپورٹ کے قریب پی آئی اے کا مسافر طیارہ آبادی پر گر کر تباہ،97 افراد جاں بحق

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ طیارے کے انجن، لینڈنگ گیئر یا ایئر کرافٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی۔

سمری میں کہا گیا کہ دونوں انجنز کی حالت اطمینان بخش تھی اور وقفے سے قبل ان کی مینٹیننس چیک کی گئی تھی۔

طیارہ اڑان بھرنے کے قابل قرار

رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی(سی اے اے) کی جانب سے طیارے کو 5 نومبر، 2020 تک اڑان بھرنے کے لیے صحیح قرار دیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایئر بس A320-200 کو پرواز کی صلاحیت(ایئروردینس) کا پہلا سرٹیفکیٹ 6 نومبر 2014 سے 5 نومبر 2105 تک کے لیے جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد ہر برس طیارے کے مکمل معائنے کے بعد سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے طیارہ حادثہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔

ٹیم کی سربراہی ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ (اے اے آئی بی) کے صدر ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کریں گے۔

تحقیقاتی ٹیم کے دیگر اراکین میں اے اے آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹیکنیکل انویسٹی گیشن ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، پاک فضائیہ کامرہ کے سیفٹی بورڈ کے انویسٹی گیٹر گروپ کیپٹن توقیر اور بورڈ کے جوائنٹ ڈائریکٹر اے ٹی سی ناصر مجید شامل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثے کی تحقیقات کیلئے 4 رکنی ٹیم تشکیل

نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم کو سول ایوی ایشن کے رولز 1994 کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے جو کم سے کم مدت میں اپنی رپورٹ ایوی ایشن ڈویژن کو جمع کرائے گی تاہم ابتدائی رپورٹ ایک ماہ کے اندر سامنے لائی جائے گی۔

قبل ازیں پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن(پالپا ) نے بین الاقوامی اداروں اور اپنی شمولیت سے پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

پالپا نے طیارے کی حالت سے متعلق تکنیکی تحقیقات کی تجویز بھی دی اور کہا کہ تفتیش کاروں کو گراؤنڈ اسٹاف اور عملے کے کام کرنے کے حالات پر لازمی غور کرنا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ تحقیقات میں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشنز کو شامل کیا جائے۔

پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری کیپٹن عمران ناریجو نے کہا تھا کہ جس طرح ماضی میں تحقیقات ہوئیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے جبکہ پالپا کی شمولیت کے بغیر بھی حادثے کی انکوائری قبول نہیں کی جائے گی۔

عمران ناریجو نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے گئے ایئر سیفٹی رولز پر عمل سے پالپا ایسے بدقسمت حادثات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پاکستان کی فضائی حدود کو پروازوں کے لیے محفوظ بنایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پی آئی اے انتظامیہ اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر حادثے کی انکوائری کا حکم دیں اور جلد از جلد اس کی رپورٹ پیش کریں۔

'پائلٹس اور عملہ انتہائی قابل تھے'

خیال رہے کہ گزشتہ شب پریس کانفرنس میں پی آئی کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ارشد ملک نے کہا تھا کہ پرواز پی کے 8303 کے پائلٹس اور عملہ قابل تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ حادثات ہوتے ہیں لیکن ہمارے پائلٹس اس قسم کے حالات کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں، طیاروں کی ہر قسم کی ضروری جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

ارشد ملک نے کہا تھا کہ میرے پائلٹس قابل تھے اور ان کے طبی ٹیسٹس بھی مکمل تھے، جہاز کا عملہ بھی مکمل تھا جبکہ طیارے کا مکمل معائنہ بھی کیا گیا تھا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ارشد ملک نے کہا تھا کہ تباہ ہونے والا طیارہ اڑان بھرنے کے لیے تکنیکی طور پر بالکل ٹھیک تھا۔

مزید پڑھیں: حادثے کا شکار طیارے میں کوئی خرابی نہیں تھی، تحقیقات میں سب واضح ہوگا، ارشد ملک

انہوں نے مزید کہا تھا کہ کسی بھی طیارے کو ہر قسم کی تکنیکی جانچ پڑتال یقینی بنانے کے بعد اڑان بھرنے کے لیے کلیئرنس دی جاتی ہے۔

سی ای او پی آئی اے نے کہا تھا کہ سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ طیارہ حادثے کی تحقیقات کرے گا جبکہ یہ میری ذمہ داری ہے اور آپ کا حق ہے کہ آپ یہ معلومات حاصل کریں۔

'طیارے نے 2 مرتبہ لینڈنگ کی کوشش کی'

علاوہ ازیں حادثے کے عینی شاہد اعجاز مسیح نے کہا کہ طیارے نے 2 مرتبہ لینڈنگ کی کوشش کی لیکن اس کے پہیے باہر نہیں آرہے تھے اور رن وے کو چھونے سے قبل ہی پائلٹ نے جہاز کو واپس موڑ لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ طیارے نے دوسری مرتبہ لینڈنگ کی کوشش کی میں نے دیکھا کہ ایک انجن میں سے آگ نکل رہی تھی کیونکہ رن وے سے رگڑ لگی تھی، وہ تیسری مرتبہ واپس نہیں آیا بلکہ تباہ ہوگیا۔

اعجاز مسیح نے مزید کہا کہ وہ ماڈل کالونی میں پی آئی اے ایمرجنسی رسپونس یونٹ کے ہمراہ موجود تھے جہاں طیارہ رہائشی عمارتوں سے ٹکرایا جس سے کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ تباہ ہونے سے قبل پائلٹ نے کیا کہا اور 'گو اراؤنڈ' کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اب تک طیارے کی سائیڈ پر پینٹ کیا گیا اس کا انفرادی نمبر 'بی ایل ڈی' یاد ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق عینی شاہد شکیل احمد نے بتایا تھا کہ ایئرپورٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر طیارہ ایک موبائل ٹاور سے ٹکرایا اور گھروں پر گر کر تباہ ہوگیا۔

جائے حادثہ کی منظر عام پر آئی ویڈیوز میں لاشوں کو ملبے تلے دبے دیکھا گیا تھا جبکہ علاقہ مکین گلیوں پر موجود ملبے کے ڈھیر کے قریب موجود تھے اور رینجرز، سندھ پولیس کے اہلکار ریسکیو آپریشنز کررہے تھے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایئربس 320 نے تباہ ہونے سے قبل بظاہر 2 سے 3 مرتبہ لینڈ کرنے کی کوشش کی۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024