چینی تحقیقاتی کمیشن کی سبسڈی سے متعلق 3 حکومتی عہدیداروں کے کردار پر تنقید
اسلام آباد: شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ جمعرات (21 مئی) کو منظر عام پر لائی گئی جس میں چینی برآمد پر سبسڈی دینے پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد اور وزیراعلیٰ پنجاب پر تنقید کی گئی اور تینوں (اپنے جوابات سے) کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تینوں حکومتی عہدیداران اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چینی پر سبسڈی دینے کے حوالے سے اپنے بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ 5 برسوں میں 40 لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی جس پر برآمداتی سبسڈی کی مد میں 29 ارب روپے دیے گئے۔
چینی پر سبسڈی دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملز مالکان لاگت سے کم بین الاقوامی قیمت پر چینی برآمد کرتے ہیں تو لاگت اور قیمت میں آنے والے فرق کو ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائے گئے پیسے سے دور کیا جاتا ہے۔
اسد عمر
رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کمیشن کو بتایا کہ ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کی بہت ضرورت تھی اور چونکہ ملک میں چینی کے کافی ذخائر موجود تھے لہٰذا اس تناظر میں چینی کی برآمدات کا فیصلہ درست تھا۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرشنگ سیزن بھی شروع ہونے والا تھا اس لیے ملک میں بظاہر چینی کی ایسی کوئی قلت نہیں تھی جس سے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'
اسد عمر کا کہنا تھا کہ مختلف پیداواری کھلاڑیوں کے ٹکراؤ اور کارٹلائزیشن کی وجہ چینی کی قیمت بڑھی۔
رپورٹ کے مطابق ای سی سی کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو سبسڈی دینے کی اجازت دینے کے فیصلے کے بارے میں اسد عمر کا جواب کمیشن کو مطمئن نہیں کرسکا۔
اسد عمر نے وجہ بتائی کہ سبسڈی کے صوبائی معاملے کا فیصلہ کرنے کا قانونی اختیار وفاقی حکومت کے پاس نہ ہونا اس فیصلے میں تبدیلی کی وجہ بنا لیکن یہ وجہ ای سی سی کے بعد کے فیصلوں کی عکاس نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر کمیشن میں رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے۔
اس سلسلے میں جب شاہد خاقان عباسی سے ہوچھا گیا کہ پیداواری لاگت کیوں عجلت میں طے کی گئی جبکہ یہ ایک سالانہ ضرورت تھی اور اسے ماہرین کی مدد سے کیا جانا چاہیے تھا تو انہوں نے کہا کہ ان کے دورِ حکومت میں سیکریٹری تجارت یونس دھاگا کو پیداواری لاگت تیار کرنے کا کہا گیا تھا اور انہوں نے جو تخمینہ لگایا وہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطالبہ کردہ سبسڈی سے کہیں کم تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک میں 19-2018 کے درمیان چینی کی برآمدات کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ اہم مسئلہ نہں تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ جب ملک میں چینی کا ناکافی اسٹاک موجود نہیں تھا تو چینی برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی گئی جس کے نتیجے میں مل مالکان نے قیمتوں میں اضافہ کر کے ایک کھرب تک کا منافع کمایا۔
مزید پڑھیں: کمیشن کیلئے 25 اپریل تک چینی، آٹے کی تمام ملز کا آڈٹ 'ناممکن' تھا، حکومتی عہدیدار
تاہم کمیشن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ سال 18-2017 میں پیداواری لاگت پر سبسڈی کا تخمینہ مستعدی کے ساتھ نہیں کیا جبکہ شاہد خاقان عباسی 20 ارب روپے کی سبسڈی منظور کرنے کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
عبدالرزاق داؤد
دوسری جانب مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کمیشن کو بتایا کہ ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کی شدید ضرورت تھی اور چینی کا سرپلس اسٹاک موجود تھا۔
ان سے پوچھا کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسٹاک اور ذخائر کے حوالے سے جو بیان دیا کیا اس پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا جس پر مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار گنے کے کمشنرز نے اجلاس میں پیش کیے گئے تھے اس لیے ان پر بھروسہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کسی بھی وقت چینی کی کوئی قلت نہیں ہوئی اور سال کے آخر تک چینی دستیاب تھی۔
کمیشن کا کہنا تھا کہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے باجود برآمدات جاری رکھنے کے حوالے سے ان کا جواب کمیشن کو قائل نہیں کرسکا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیشن نے اتنے ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ چینی کی برآمدات مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ تھی اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں ہیر پھیر، ذخیرہ اندوزی، آگے کے ٹھیکے اور شوگر سیکٹر کے کھلاڑیوں کا ’سٹا‘ شامل تھا۔
عثمان بزدار
چینی تحقیقاتی کمیشن نے کہا کہ سیکریٹری خوراک شوکت علی نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو 2 ارب 96 کروڑ روپے کی ضمنی گرانٹ کی سمری ارسال کی تھی تاکہ 18-2017 میں چینی کی درآمدات پر زیر التوا ادائیگیاں کی جاسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی
رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کو حکومت پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کے بارے میں بریف کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کابینہ کمیٹی برائے چینی کے 17دسمبر 2018 کو ہوئے اجلاس میں سبسڈی کا جائزہ لیا گیا جس میں اس کی منظوری دی گئی۔
جب ان سے 6 دسمبر 2018 کو ہونے والے اجلاس کے نکات کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کی شوگر ملز کو 35 روپے فی کلو سبسڈی دینے کا غیر اصولی فیصلہ کیا گیا تو انہوں نےجواب دیا کہ انہیں وہ اجلاس یاد نہیں۔
کمیشن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ 6 دسمبر کو کیا گیا فیصلہ 4 دسمبر کو ای سی سی کے اجلاس کے فیصلے سے بھی پہلے کیا گیا تھا۔
مذکورہ کمیشن کا مؤقف یہ تھا کہ دی گئی سبسڈی ناجائز تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنا مؤقف پیش کیا کہ سبسڈی کابینہ نے دی تھی اور یہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا لیکن اجلاس کے نکات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔