افغان امن عمل کے خلاف کام کرنے والی قوتوں سے تحفظ ضروری ہے، دفتر خارجہ
اسلام آباد: پاکستان نے دنیا کو افغان امن عمل کے خلاف کام کرنے والی قوتوں سے ایک مرتبہ پھر خبردار کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران افغان امن عمل میں بھارت کے ممکنہ کردار سے متعلق سوال پر دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے والوں سے بچانے کا کہا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد اور جامع تصفیہ تک پہنچنے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی اہم ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں، ترجمان
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اسی طرح اس امن عمل کے خلاف کام کرنے والوں سے بھی تحفظ ضروری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے باقاعدہ طور پر عالمی برادری کو یاددہانی کروائی ہے کہ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے خلاف کام کرنے والی قوتوں کے کردار اور طریقہ کار پر نگاہ رکھے۔
گزشتہ دنوں افغانستان کے امور کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کو افغان امن عمل کے تناظر میں انتہائی اہمیت دی جا رہی تھی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق زلمے خلیل زاد کے دورے کا مقصد بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ افغان حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے طالبان قیدیوں کی رہائی اور افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کردار ادا کرے۔
یہ بھی پڑھیں: 'بھارت طالبان سے مذاکرات کو امن عمل میں مددگار سمجھتا ہے تو اسے ایسا کرنا چاہیے'
ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت اب بھی افغانستان میں گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود صدر اشرف غنی گھٹنے ٹیکنے اور اقتدار سے الگ ہونے پر آمادہ نہیں۔
بھارتی ماہرین کے مطابق بھارت کا طالبان کے خلاف ہمیشہ سے جارحانہ رویہ رہا ہے اور ان کی جانب سے ہمیشہ ہی طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کی حمایت کی گئی ہے لیکن حالات کی تبدیلی خصوصاً امریکا کے خطے سے ممکنہ انخلا کو دیکھتے ہوئے بھارتی حکام کے رویے میں تبدیلی بعید از قیاس نہیں۔
علاوہ ازیں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے متعلق ٹھیکہ دیئے جانے پر بھارتی تبصرے کو مسترد کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ 'ہم بھارت کے بیان کو مسترد کرتے ہیں، اس معاملے پر پاکستان کی پوزیشن مستقل، واضح اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں پر مبنی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اس منصوبے پر اعتراضات نہیں اٹھا سکتا۔