سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کردیا
ترکی میں قتل کیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح خاشقجی نے کہا ہے کہ ان کے اہلخانہ نے والد کے قاتلوں کو معاف کردیا۔
سعودی گزیٹ کی رپورٹ کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں صلاح خاشقجی نے کہا کہ ان کے اہلخانہ نے والد کا قتل کرنے والوں کو معاف کردیا۔
انہوں نے لکھا کہ اس بابرکت مہینے (رمضان) کی اس بابرکت رات کو ہمارے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا اپنی مقدس کتاب میں کہا گیا وہ فرمان ہے کہ برے کاموں کا بدلہ اس کے برابر ہے لیکن جو شخص معاف کرتا ہے اور مفاہمت کرتا ہے تو اللہ اس کا اجر دیتا ہے، وہ ناانصافی پسند نہیں کرتا۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'ہم، شہید جمال خاشقجی کے بیٹے اعلان کرتے ہیں ہم اپنے والد کے قاتلوں کو اللہ کی خاطر معاف کرتے ہیں اور اس سے اجر مانگتے ہیں'۔
علاوہ ازیں برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق اسلامی قانون کے تحت مقتول کے اہلخانہ کی معافی کی روشنی میں سزائے موت میں تبدیلی کی جاسکتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کا اطلاق مذکورہ کیس میں ہوگا یا نہیں۔
صلاح خاشقجی اپنے گزشتہ بیانات میں سعودی تحقیقات پر اعتماد ظاہر کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کی حمایت بھی کی تھی۔
انہوں نے سعودی عرب کے مخالفین پر تنقید بھی کی تھی اور کہا تھا کہ ان ممالک نے ملک کی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے ان کے والد کی موت کا استعمال کیا۔
اس سے قبل اکتوبر 2018 میں سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح سے ملاقات کی اور ان کے والد کے قتل پر ان سے اظہارِ افسوس کیا تھا لیکن سوشل میڈیا اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے صلاح سے مصافحہ کیا اور ان کے والد کے قتل پر اظہارِ افسوس بھی کیا۔
اس حوالے سے مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کے کارکن فادی القادی نے ایک ویڈیو شیئر کی اور ساتھ میں لکھا کہ ’خاشقجی کے بیٹے کو اس شخص سے ہاتھ ملانا پڑا جو ممکنہ طور پر اس کے والد کا قاتل ہے۔
جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟
سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2017 سے امریکا میں مقیم تھے۔
تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔
ترک حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ’جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر ہوا‘
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
12 اکتوبر 2018 کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے شاہی خاندان کے 5 افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اسی سال 17 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا تھا۔
دریں اثنا 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔
علاوہ ازیں امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔
مزید برآں دسمبر میں امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی تھی جس میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
4 جنوری 2019 کو ریاض کی عدالت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے 11 میں سے 5 مبینہ قاتلوں کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم اقوام متحدہ نے ٹرائل کو 'ناکافی' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح ٹرائل کی شفافیت کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: آڈیو ریکارڈنگ کی نئی تفصیلات جاری
بعدازاں اپریل 2019 میں ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔
اسی دوران سعودی عرب کی جانب سے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے 4 بچوں کو 'خون بہا' میں لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر اور ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر رقم دینے کا انکشاف بھی ہوا تھا تاہم جمال خاشقجی کے خاندان نے سعودی انتظامیہ سے عدالت کے باہر مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کی تردید کردی تھی۔
جمال خاشقجی کے بڑے بیٹے صلاح خاشقجی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'فی الوقت معاملے کا ٹرائل چل رہا ہے اور تصفیہ کے لیے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے'۔
اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی، مارچ 2019 میں ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار مشتبہ ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔
بعدازاں جون میں اقوام متحدہ نے تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سینئر سعودی عہدیدار صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔
اگنیس کیلامارڈ نے رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ اس قتل کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی تفتیش کی جائے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب میں جاری جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف مقدمے میں اس وقت ڈرامائی موڑ سامنے آیا تھا جب سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ریکارڈنگ کی نئی تفصیلات سامنے آئی تھیں جن میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ میرا منہ بند نہ کریں، مجھے دمہ ہے۔
بعدازاں ستمبر 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ میں صحافی جمال خاشقجی قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں کیونکہ یہ واقعہ ان کے دور اقتدار میں رونما ہوا تھا۔
دسمبر 2019 میں سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت اور دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
بعدازاں رواں برس مارچ میں ترکی کے پراسیکیوٹر نے جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دو قریبی ساتھیوں سمیت 20 افراد پر باقاعدہ فرد جرم عائد کردی تھی۔
ترک پراسیکیوٹر نے حتمی سماعت کی تاریخ دیے بغیر کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے تھے لیکن ملک میں عدم موجودگی کے باوجود ٹرائل شروع ہوگا، ترکی تمام 20 ملزمان کو عمر قید کی سزا دینے کے حق میں ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں