رمضان میں اسرائیل-سعودی عرب کے قریبی تعلقات پر مبنی ڈرامے نشر کرنے پر تنازع
سعودی عرب میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ٹی وی چینل پر رمضان میں نشر کیے جانے والے دو ڈراموں پر نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے جہاں ان دونوں ڈراموں میں سعودی عرب کے اسرائیل سے بہتر تعلقات کو دکھایا گیا ہے۔
سعودی عرب سمیت اکثر عرب ممالک کے اسرائیل سے باضابطہ کوئی سفارتی تعلقات نہیں لیکن ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کی ایران سے دشمنی کے تناظر میں اب ان کے تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا عرب ممالک فلسطین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟
رمضان میں سعودی ٹی وی چینلز پر سب سے زیادہ تعداد میں لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں اور اس ماہ میں خصوصاً ان ڈراموں کو نشر کرنے کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ سعودی عرب باضابطہ طور پر اسرائیل سے بہتر تعلقات کی جانب گامزن ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں شاہی خاندان پہلے ہی حتمی فیصلہ کر چکا ہے۔
'ایگزٹ 7' نامی ڈرامے میں تیزی سے جدیدیت کی جانب گامزن سعودی عرب میں ایک متوسط گھرانے کی کہانی دکھائی گئی ہے اور ناظرین نے ڈرامے کے حوالے سے پہلی مرتبہ اس وقت اعتراض اٹھایا جب اس میں ایک نوجوان کو آن لائن ویڈیو گیم کے ذریعے ایک اسرائیلی لڑکے سے دوستی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
ایک اور متنازع سین میں ایک نوجوان نے اسرائیل سے تعلقات استوار نہ کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اصل دشمن فلسطینی ہیں جو کئی دہائیوں سے مالی مدد ملنے کے باوجود دن رات سعودی عرب کی تذلیل کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’اسرائیل سے تعلقات بحال‘ کرنے پر مبنی سعودی ڈراما تنازع کی زد میں آگیا
'اُم ہارون' نامی ایک اور ڈرامے میں 1940 کی دہائی کے کویت میں ایک عرب آبادی کو دکھایا گیا ہے اور سوشل میڈیا پر عوام نے اس ڈرامے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے کی سوچ کو فروغ دینا ہے۔
اس ڈرامے کو سعودی حکومت کی زیر نگرانی چلنے والے انتہائی بااثر عرب سیٹلائٹ نیٹ ورک 'ایم بی سی' نے پروڈیوس کیا کیونکہ اس چینل کے بانی ولید ال ابراہیم کو دیگر بااثر تاجر گھرانوں کے افراد کے ہمراہ 2017 میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر حراست میں لیا گیا تھا اور اس وقت سے اس چینل کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔
یہ دونوں ڈرامے مصر میں نشر کیے جانے والے سائنس فکشن ڈرامے کے برعکس ہیں جہاں مصری ڈرامے 'دی اینڈ' میں یہودی ریاست کی تباہی دکھائی گئی ہے جس پر اسرائیل میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
دوسری جانب ایم بی سی نے ان ڈراموں کو نشر کرنے کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ رمضان المبارک میں ان دونوں ڈراموں کو سب سے زیادہ ریٹنگ مل رہی ہے۔
چینل کے ترجمان ماذن ہائیک نے خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کئی دہائیوں سے خوف، دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت کے سائے تلے دقیانوسی سوچ کے تحت چل رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان ڈراموں کا مقصد خطے کی ایک اور انداز میں تصویر کشی کرنا ہے جو مذہبی رواداری پر مبنی مذاکرات، برداشت اور امید کی عکاسی کرتی ہے، موجودہ گلوبلائزیشن کے دور میں یہ الزامات پرانے ہو چکے ہیں البتہ ماہرین اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
ایسیکشن یونیورسٹی میں سعودی عرب کی اسرائیل کے لیے خارجہ پالیسی میں مہارت رکھنے والے لیکچرار عزیز الغسیان نے کہا کہ یہ ڈرامہ سعودی عرب کی ریاست کے لیے مددگار ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے معاملے پر لوگوں کا کیا موقف ہے، یہ ڈرامے لوگوں کی رائے تبدیل کرنے کی راہ ہموار کریں گے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے پاسپورٹ پر سعودی عرب کا دورہ نہیں کیا جاسکتا، سعودی وزیرخارجہ
رواں سال کے اوائل میں سعودی عرب نے ہولو کاسٹ پر مبنی فلم کو فلم فیسٹیول میں نشر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں کورونا وائرس کی وبا کے سبب اس فیسٹیول کو منسوخ کردیا گیا۔
سعودی عرب اور اسرائیل کی یہ قربتیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کا حصہ لگتی ہیں جس میں ٹرمپ کا اسرائیل کے حوالے سے جانبدار رویہ عیاں ہے، البتہ ان کے اس منصوبے کو اکثر عرب ممالک مسترد کرچکے ہیں لیکن سعودی عرب کا رویہ قدرے مختلف نظر آتا ہے جس نے 2018 میں پہلی مرتبہ اسرائیل کے مسافر طیارے کو اپنی فضائی حدود میں داخلے کی اجازت دی تھی۔
متحدہ عرب امارات نے بھی منگل کو اسرائیل کے لیے پہلی مرتبہ پرواز کا اعلان کیا اور اتحاد ایئرویز کے لیے ذریعے فلسطینیوں کے لیے طبی سامان بھیجا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟
سعودی عرب میں 2030 کے معاشی اصلاحات کے منصوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے جہاں ایک طرف سعودی عرب اور اسرائیل کی قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں وہیں دونوں ہی ملکوں کے ایران سے کشیدہ تعلقات اس تعلق کی راہ مزید ہموار کر رہے ہیں۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے قریبی تعلقات رکھنے والے ایک امریکی ربی مارک شنائر نے کہا کہ سعودی خطے میں اسرائیل کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہیں، دو سال قبل شہزادہ خالد بن سلمان نے مجھے کہا تھا کہ سعودی عرب جانتا ہے کہ 2030 کے معاشی منصوبے کے مقاصد حاصل کرنے میں اسرائیل اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
جب ولی عہد محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان سے گفتگو اور اس بات کی تصدیق کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی تو ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
دوسری جانب ایک سعودی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدے اور دو ریاستی منصوبے کے حوالے سے سعودی عرب کا موقف نہیں بدلا اور ایک مرتبہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس کے بعد اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا
سعودی حکومت کی جانب سے اسرائیل کے حوالے سے عوامی جذبات اور غم و غصے کو مستقل نظرانداز کر کے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہودی ریاست سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کی ایک مثال فروری میں دیکھنے کو ملی جب جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی عرب نے ایک یروشلم کے ربی کی میزبانی کی تھی۔
اسرائیلی میڈیا نے یروشلم کے ربی ڈیوڈ روزن کی سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے ساتھ ایک تصویر کو ایک انقلابی لمحہ قرار دیا تھا البتہ سعودی سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس تصویر کو نشر کرتے ہوئے تصویر سے یہودی ربی کا نام نکالنے کے ساتھ ساتھ تصویر سے بھی ان کو کاٹ دیا تھا۔