چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی حکومت میں ہمت نہیں تھی کہ اس حوالے سے تحقیقات کرے اور اسے پبلک کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اسے سراہنا چاہیے کہ ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں، دسمبر 2018 سے لے کر اگست 2019 تک چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا جو 17 روپے بنتا ہے اور 2019 کے بعد بھی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ اسی اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) واجد ضیا کی سربراہی میں 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، اس رپورٹ میں بحران اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ بننے والی شوگر انڈسٹری کے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا اور رواں سال کے اوائل میں انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ واجد ضیا تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس انکوائری کمیشن نے جو کام کیا اسے ایک حتمی رپورٹ کی صورت میں کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے لیے آج خصوصی اجلاس بلایا گیا تھا، واجد ضیا نے کابینہ کو رپورٹ کے بنیادی نکات اور سفارشات سے متعلق بریفنگ دی۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا اعلان کیا ہے اور کچھ دیر میں یہ رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا جب بھی سیاست میں آئے گا تو وہ سیاست میں آکر بھی کاروبار کرے گا اور عوام کے خرچے پر کرے گا اور رپورٹ میں سامنے آنے والی باتیں وزیراعظم کے بیان کی 100 فیصد تصدیق کرتی ہیں۔
کسانوں کو گنے کی قیمت کی کم ادائیگی
معاون خصوصی نے کہا کہ رپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں جو گنے کی خریداری سے لے کر چینی کی تیاری، اس کی فروخت اور برآمد تک ہیں، رپورٹ میں ان تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا اور اسے لوٹا گیا، رپورٹ میں یہ پایا کہ شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 میں کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی، تقریباً تمام شوگر ملز گنے کے وزن میں 15سے لے کر 30 فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں جس کا نقصان کسانوں کو ہوتا ہے اور مل مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔
کچی پرچی کا نظام
شہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔
معاون خصوصی نے مزید کہا کہ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے، ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مل مالکان جب چینی کی پیداواری لاگت ظاہر کرتے ہیں تو گنے کی قیمت اس حوالے سے مختص نرخ سے بھی زیادہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ کمیشن نے وہ شواہد معلوم کیے ہیں جہاں گنا کم قیمت میں خرید کر اور ساتھ ساتھ کٹوتی کرکے مزید کم ادائیگی کی جاتی ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کئی ملز مالکان ان آفیشل بینکنگ بھی کرتے ہیں اور ایڈوانس میں پیسے دیتے ہیں یا تو فرٹیلائزر کی مد میں کچھ دیا جاتا ہے جو باضابطہ طریقہ کار نہیں ہے اور اس سے بھی 35 فیصد تک منافع کما کر کسان کو کم ادائیگی کی جاتی ہے۔
پیداواری لاگت میں ہیر پھیر
شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو کس طرح لُوٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی پچھلی رپورٹ اور فرانزک رپورٹ میں یہ تعین کردیا گیا ہے کہ حکومت کے ادارے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے تخمینے پر انحصار کرتے ہیں جبکہ یہ حکومتی اداروں اور ریگولیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ ایک کلو چینی کتنے روپے میں تیار ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل تھا کہ چینی کی پیداواری لاگت معلوم کرنی ہے، جب معلوم کیا گیا تو اصل قیمت اور شوگر ملز ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی قیمتوں میں واضح فرق پایا گیا۔
شہزاد اکبر نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں شامل 3 سالوں کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے، شوگر ملز نے 18-2017 کی جو پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک آڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریباً 13 روپے کا فرق ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 19-2018 میں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی فی کلو قیمت 52 روپے 6 پیسے متعین کی جبکہ کمیشن کی متعین کردہ قیمت 40 روپے 6 پیسے ہے جو ساڑھے 12 روپے کا فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20-2019 میں چینی کی متعین کردہ قیمت 62 روپے فی کلو ہے جسے کمیشن نے 46 روپے 4 پیسے متعین کیا ہے اور یہ واضح فرق ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات بگاس (گنے کی پھوک) اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے جب شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق آگیا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ جس قیمت پر گنا خریدا جارہا ہے اگر ایمانداری سے چینی کی وہی قیمت مختص کی جائے تو ایک واضح فرق آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن نے اس حوالے سے 'سکروز کانٹینٹ' کا ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ گنے میں سے نکالی جانے والی چینی کا تناسب کیا ہے اسے شوگر ملز 9.5 سے 10.5 کاؤنٹ کرتی ہے جس سے کمیشن اتفاق نہیں کرتا، اس حوالے سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، پی سی ایس آئی آر یا شوگر ملز کے علاوہ کوئی لیبارٹری یہ معلوم کرسکتی ہے جو کہ پہلے کبھی آزادانہ طریقے سے معلوم نہیں کی گئی۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر ملز اپنے خسارے کو بھی پیداواری لاگت میں شامل کرتی ہیں تو ان وجوہات کی وجہ سے چینی کی قیمت زیادہ دکھائی جاتی ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ کمیشن کے مطابق مختلف طریقوں سے چینی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے جس کا فائدہ بروکر یا مل مالکان کو ہوتا ہے اور اس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے جسے چینی کی دُگنی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر انکوائری کمیشن کا ماننا ہے یہ سب مل مالکان کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سٹہ کیسے ہوتا ہے جس کے ذریعے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ ہوا ہے اور گنے کی خریداری میں انڈر رپورٹنگ کی جارہی ہے، پاکستان میں جتنا گنا پیدا ہوتا ہے اور جتنی چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنی فروخت ہوتی ہے اس میں 25 سے 30 فیصد کا فرق آرہا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ کمیشن کے مطابق اگر 4 یا 5 فیصد گنا، گڑ کے لیے بھی رکھ دیں تو بھی صرف اس سال کا جو گنا رپورٹ نہیں ہورہا ہے اس کا تخمینہ 1.7 میٹرک ٹن چینی ہے جو کرش ہوئی لیکن رپورٹ نہیں ہوئی اور اس پر کوئی ٹیکس بھی ادا نہیں کیا گیا۔
شہزاد اکبر نے کہا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کی بے نامی فروخت دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی، کوئی ٹرک ڈرائیور نکل رہا ہے تو کوئی کچھ اور یہ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، جس میں سیلز ٹیکس ادا نہیں ہورہا اور چینی اسمگل ہورہی ہے تو اس پر ڈیوٹی ادا نہیں کی جارہی۔
معاون خصوصی نے کہا کہ مل مالکان نے کرشنگ کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے جو قانون کے خلاف ہے، جس کے لیے لائسنس حاصل کیا جاتا ہے۔
اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کیلئے اضافی سبسڈی
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن پیداواری لاگت میں سیلز ٹیکس بھی شامل کر رہی ہے، چینی کی قیمت میں صرف ایک روپیہ اضافہ کرکے بھی 5 ارب 20 کروڑ روپے منافع کمایا جاتا ہے، یہاں تو ہر سال 10 سے 12 روپے کی اضافی لاگت دکھائی گئی ہے اور مارکیٹ میں کی جانے والی ہیرا پھیری الگ ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ پچھلے 5 سالوں میں چینی کی برآمد پر 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، 2015 میں 6 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی، 2016 میں 6 ارب 50 کروڑ روپے، 18- 2017 میں کوئی سبسڈی نہیں دی گئی، 2018 میں وفاق 15 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی اور 4 ارب 10 کروڑ روپے کی اضافی سبسڈی یعنی 9.3 روپے فی کلو کی سبسڈی سندھ حکومت نے دی۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے لکھا ہے کہ سندھ کی جانب سے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی گئی، جب وفاق کی جانب سے سبسڈی مل رہی ہے تو اس میں 9.3 روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے اور سندھ میں سب سے زیادہ شیئر اومنی گروپ کا تھا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ 20-2019 میں وفاق نے چینی کی برآمد پر کوئی سبسڈی نہیں دی، اس میں پنجاب 3 ارب سے زائد روپے کی سبسڈی دی جس میں سے 2 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی واپس لی گئی، ان تمام سبسڈیز کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی پیداواری لاگت کو علیحدہ سے جانچ نہیں کرتے تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ 2018 میں دی جانے والی سبسڈی میں چینی کی پیداواری لاگت کا آزادانہ تعین نہیں کیا گیا، برآمد کے حوالے سے سب سے حیران کن بات سامنے آئی کہ ملک میں 88 شوگر ملز، 29 ارب کی سبسڈی لیتی ہیں، 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس ہے جس میں سے 12 ارب روپے کا ریفنڈ ہے، اس طرح صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا اور یہ کاروبار عوام کے دیے ہوئے پیسے سے چل رہا ہے۔
پاکستان کے برآمدی اور افغانستان کے درآمدی ڈیٹا میں فرق
معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ پاکستان سے 68 فیصد چینی افغانستان برآمد کی جاتی ہے جس میں کافی مسائل پائے گئے، پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمدی ڈیٹا میں فرق پایا گیا جس سے اربوں روپے کا فرق آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن وزن لے کرجاسکتا ہے، لیکن ظاہر یہ کیا گیا کہ ایک ایک ٹرک پر 70 سے 80 ٹن چینی افغانستان لے جائی گئی یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ افغانستان میں چینی کی برآمد مشکوک ہے اور اس حوالے سے ٹی ٹی موجود ہے۔
جے ڈی ڈبلیو اور الائنس کی جانب سے بے نامی فروخت
معاون خصوصی نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کارٹیلائزیشن یہ ہے کہ ملز مالکان بلیک میل کرتے ہیں، یکدم ہڑتال کی جاتی ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کو چینی نہیں دینی وغیرہ یہ سب شامل ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوگر ملز کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے 6 بڑے گروہ جو پاکستان کی چینی کی 51 فیصد پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کے پیداواری حجم کی بنیاد پر آڈٹ کیا گیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ یے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ فرانزک آڈٹ میں سب سے پہلے الائنس مل کو شارٹ لسٹ کیا گیا جو آر وائے کے گروپ کی مل ہے، اس میں پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-کیو) کے رہنما مونس الہٰی کے مختلف کمپنیوں کے ذریعے 34 فیصد شیئرز اور عمر شہریار کے 20 فیصد شیئرز ہیں۔
انہوں نے کا کہ الائنس مل نے 2014 سے 2018 تک کسانوں کو رقم کی ادائیگی میں 11 سے 14 فیصد کٹوتی کی اور انہیں 97 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، اسی دوران انڈر رپوٹڈ چینی کی فروخت بھی شامل ہے جو بےنامی خریداروں کو بیچی گئی، انہوں نےکہا کہ رپورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود صاحب کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا، بگاس اور مولیسس کی فروخت کو انڈر انوائس کیا جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں کارپوریٹ فراڈ بھی سامنے آیا اور جے ڈی ڈبلیو کی جانب سےفارورڈ سیلز، بے نامی فروخت اور سٹہ کے شواہد سامنے آئے ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ شہباز شریف فیملی کی العربیہ مل کا بھی فرانزک آڈٹ کیا گیا جس میں ڈبل اکاؤنٹنگ اور دو کھاتوں کے شواہد موجود ہیں اور انہوں نے 'آر' کے نام سے رپورٹڈ اور 'این آر' کے نام سے نان رپورٹڈ کھاتے رکھے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ العربیہ مل میں کچی پرچیوں کے ذریعے 40 کروڑ روپے کا فراڈ اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کی گئی۔
ریگولیٹری نظام میں بہتری کی ضرورت
معاون خصوصی نے رپورٹ میں موجود سفارشات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریگولیٹری نظام میں بنیادی ریگولیشن کی کمی ہے اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری اداروں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئےی اے) کو اپنی ریگولیشن میں اضافہ کرنا چاہیے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کسانوں کو مکمل ادائیگی یقینی بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری کے لیے، کھاتوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے، یہ چوری کی گئی رقم ہے جسے لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ نگرانی کے طریقہ کار کو مزید مضبوط بنایا جائے، یہ رپورٹ پبلک کرنا اس کی شروعات ہے۔
ان سے قبل وزیر اطلاعات نے کہا کہ چینی بحران کی تہہ تک جانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے اس کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا تھا، جس سے سب سے زیادہ متاثر غریب انسان ہوا۔
خیال رہے کہ چینی بحران سے متعلق رپورٹ آج (21 مئی) کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے اسے عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ شوگر فرانزک کمیشن (ایس ایف سی) کی جانب سے گزشتہ برس ہونے والے چینی بحران سے متعلق رپورٹ اپریل میں کے اواخر میں جمع کروانی جانی تھی تاہم بعد ازاں رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کمیشن نے مزید 3 ہفتے کی مہلت کی درخواست کی تھی۔
9 مئی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان کو ثبوت پیش کرنے چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
شاہد خاقان عباسی نے چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے چیئرمین واجد ضیا کو بحران سے متعلق شواہد فراہم کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ داری کے تعین کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر سے بھی تحقیقات کی جانی چاہیے جس کے بعد اسد عمر12 مئی کو کمیشن میں پیش ہوئے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ کی جانب سے چینی اور اس کی برآمدات کے حوالے سے لیے گئے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔
13 مئی کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دفاتر میں چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر حکومت پنجاب سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروادیا تھا۔
بعد ازاں 14 مئی کو وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے چینی بحران پر تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوکر چینی مشاورتی بورڈ کے اس کی برآمدات کے حوالے سے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ
یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی اپنی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
مزید پڑھیں: چینی بحران: تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کی اجازت دے دی
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
کس نے کتنا فائدہ اٹھایا
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔