• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

قتل کیس: عمران فاروق کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ, پوسٹ مارٹم رپورٹ بطور شواہد پیش

شائع May 20, 2020
ملزمان کی سفری تاریخ بطور شواہد پیش کی گئی جبکہ ملزمان کے فنگر پرنٹس بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ملزمان کی سفری تاریخ بطور شواہد پیش کی گئی جبکہ ملزمان کے فنگر پرنٹس بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئے— فائل فوٹو: اے ایف پی

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما عمران فاروق قتل کیس کی سماعت میں ملزمان سے متعلق اہم شواہد جبکہ ڈاکٹر عمران فاروق کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی پیش کیے گئے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج شاہ رخ ارجمند نے کیس کی سماعت کی جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے حتمی دلائل کا آغاز کردیا۔

سماعت کے دوران گرفتار ملزمان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی میں شریک ہوئے۔

عدالت میں ملزمان کی سفری تاریخ بطور شواہد پیش کی گئی جبکہ ملزمان کے فنگر پرنٹس بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئے۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی بطور شواہد پیش کیے گئے۔

ایف آئی اے کے پراسیکوٹر خواجہ امتیاز نے حتمی دلائل کے دوران کہا کہ 15 اکتوبر 2010 کو ملزم محسن علی کا ویزا برطانیہ میں لگا اور انہوں نے 3 ہزار پاؤنڈز ماہانہ فیس والے ادارے میں داخلہ لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیس محسن علی کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص اتنے مہنگے ادارے میں داخلہ نہیں لیتا اور اگر لے تو ڈگری مکمل کرتا ہے۔

خواجہ امتیاز نے کہا کہ محسن علی، عمران فاروق قتل کے فورا بعد کورس چھوڑ کر برطانیہ سے نکل گیا جس سے صاف ظاہر کرتا ہے ملزم صرف قتل کے لیے ہی برطانیہ گیا تھا۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم محسن علی، عمران فاروق کا پیچھا کرتے نظر آرہا ہے، چاقو پر ملنے والے فنگر پرنٹس بھی محسن علی کے ہی ہیں۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے برطانوی چیف انویسٹیگیشن آفیسر کا بیان بھی پڑھ کر سنایا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں پیش کیے گئے ثبوت جرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

سماعت کے دوران وکیل صفائی مہر بخش نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ محسن علی کو معظم علی کی کمپنی میں 2005 سے دسمبر 2009 تک اسسٹنٹ مینیجر ڈیکلیئر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ محسن علی نے LAMS میں داخلہ کیا اور پڑھائی کی، جعلی تجربے کے سرٹیفکیٹ بنائے گئے لیکن میرے موکل کا ملزم معظم علی سے کوئی تعلق نہیں۔

مہربخش نے کہا کہ ایف آئی اے نے جعلی دستاویزات سے میرے موکل کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی، شمائلہ عمران ابتدائی بیان سے مکر گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: 'ملزم معظم علی سے نائن زیرو ملنے گیا تو خوف طاری ہوگیا'

دفاعی وکیل نے کہا کہ گواہان کے بیانات کے مطابق قاتل کا چہرہ سانولہ تھا جبکہ محسن علی کا رنگ صاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمائلہ عمران نے من گھڑت کہانی بنائی، شمائلہ عمران کے مطابق ان کے شوہر کے خلاف اس وقت کوئی کیس نہیں تھا جبکہ عمران فاروق کے خلاف اس وقت 4 کیس تھے اور ان پر فرد جرم عائد ہوچکی تھی۔

ملزم محسن علی کے وکیل نے کہا کہ ڈاکڑ عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ عمران کا بیان تضادات سے بھرپور ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ ڈاکڑ عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم بانی متحدہ نے دیا ہو۔

وکیل دفاع نے کہا کہ ایک گواہ نے کہا کہ بیان ریکارڈ کروانے سے پہلے صرف ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا جو کیخلاف قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقتول عمران فاروق کے سر کی قیمت مقرر ہوئی تھی، عمران فاروق کے بہت سے دشمن ان کی جان کے درپے تھے۔

عمران فاروق قتل کیس

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع بھی ہوئی تھیں۔

بعد ازاں برطانوی پولیس نے تحقیقات کے حوالے سے ویب سائٹ پر کچھ تفصیلات جاری کی تھیں جس کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا عمل ملتوی

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو 3 مبینہ ملزمان معظم علی، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا تھا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ 'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انہوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا تھا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق کیس: ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی درخواست منظور

اسی سال 28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

علاوہ ازیں 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو اکتوبر کے مہینے تک ٹرائل مکمل کرنے کا کہا حکم دیا تھا تاہم استغاثہ کی جانب سے عدالت سے متعدد مرتبہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی، جس کی وجہ برطانوی حکومت کا شواہد فراہم کرنے میں رکاوٹ بننا بتایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ ملزم کو سزائے موت سنا دی جائے گی۔

تاہم گزشتہ سال برطانوی حکومت نے 23 برطانوی گواہان، 3 تفتیش کار اور دیگر ماہرین و عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 سے زائد دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024