سپریم کورٹ کا مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک (ایم ایچ این پی) میں واقع مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اسلام آباد انتظامیہ کو توسیع کی کوشش کے دوران گرنے والے درختوں کو دوبارہ اُگانے کا حکم دیا۔
اسلام آباد کے چیف کمشنر عامر علی احمد نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ نے پہلے ہی مونال کو سیل کردیا تھا اور ریسٹورنٹ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
یہ ہدایات اس وقت دی گئی جب چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ان کے علم میں آیا ہے کہ 500 سے 1000 درختوں کو ریسٹورنٹ کی توسیع کے لیے گرایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: مونال ریسٹورنٹ کی زمین فوج واپس لینا چاہتی ہے، سی ڈی اے
سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری نے نیشنل پارک میں مونال ریسٹورنٹ تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔
اپنے حکم میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مارگلہ کی پہاڑیاں جو اسلام آباد سے پنجاب اور خیبرپختونخوا تک پھیلی ہوئی ہیں انہیں نیشنل پارک اور ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا اور اسی لیے اس علاقے کے کسی بھی حصے کو کمرشل سرگرمی یا نجی رہائش کے لیے کسی شخص کو الاٹ نہیں کیا جاسکتا۔
عامر علی احمد جو کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) کے چیئرمین بھی ہیں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ علاقے میں کئی ریسٹورنٹ قائم ہوگئے ہیں جبکہ پائن ریزیڈینشیا سمیت دیگر ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس سروسز بھی فراہم کرتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ تمام تعمیرات غیر قانونی ہیں اور مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے خلاف ہیں، ان کی تعمیر روکنا اور مسمار کیا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے عید کی تعطیلات کے بعد ہونے والی سماعت میں مونال اور پائن ریذیڈینسیا کے مالکان کو بھی عدالت میں طلب کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: سی ڈی اے کے نئے ضمنی قوانین سے غیرقانونی عمارتوں کے مالکان کو فائدہ ہوگا
علاوہ ازیں اطلاعات کے مطابق مارگلہ کے محفوظ جنگلات کا رقبہ مجموعی طور پر 17 ہزار ایک سو 11 ایکڑ ہے جو خیبرپختونخوا، راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہے۔
اسلام آباد کی تعمیر کے بعد سی ڈی اے نے ان محفوظ شدہ جنگلات کی انتظامیہ کو منتقلی کے لیے مغربی پاکستان کی صوبائی حکومت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد مارگلہ کے محفوظ جنگلات کے 12 ہزار 511 ایکڑ سے 11 ہزار 870 ایکڑ اراضی اور بنی گالا کی 641 ایکڑ اراضی 1961 میں سی ڈی اے کو لیز کی گئی تھی۔
اس حوالے سے مغربی پاکستان کے سیکریٹری زراعت اور سی ڈی اے کے ہورٹی کلچر ڈائریکٹریٹ کے درمیان 1966 میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور 1980 میں اسے نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا۔
مونال کو بند کردیا گیا
وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی نے کہا کہ گزشتہ روز پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی(پاک-ای پی اے) اور چیف کمشنر کے دفتر نے توسیعی تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے غیرقانونی طور پر درخت گرانے پر مونال ریسٹورنٹ کو بند کردیا تھا۔
پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی نے کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں پر قسم کی تعمیراتی سرگرمی غیر قانونی ہے۔
پاک-ای پی اے کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ نے ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کی جانب سے جگہ کی حفاظت اور سیاحوں کو موسم گرما میں جنگلات میں لگنے والی آگ سے بچانے کے لیے جنگلی پودوں کو صاف کرنے کے دعوے کو مسترد کردیا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ریسٹورنٹس کی انتظامیہ ماحولیاتی قوانین کو نظرانداز کرتی ہے اور ان کی خلاف ورزی کے لیے خامیاں تلاش کرتی ہیں۔
فرزانہ الطاف شاہ نے کہا کہ یہ نہیں بھولیں کہ یہ کمرشل مقامات، ماحولیاتی منظوری کے بغیر تعمیر کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ریسٹورنٹ نے اپنے احاطے میں توسیع کے لیے تعمیراتی سرگرمی شروع کی اور 8 سے 9 کینال اراضی پر پھیلے درختوں کا صفایا کردیا تھا۔
دریں اثنا وزارت موسمیاتی تبدیلی کے میڈیا فوکل پرسن محمد سلیم نے بتایا کہ وزیراعظم کے مشیر ملک امین اسلم کے علم میں لایا گیا تھا کہ کچھ روز سے مونال کی توسیع کےلیے غیر قانونی تعمیرات جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریسٹورنٹ کی اتنظامیہ نے توسیع کا آغاز کیا تھا جو درختوں اور زمین کے اہم نقصان کا باعث بنا۔
محمد سلیم نے کہا کہ ملک امین اسلم نے پاک-ای پی اے کو ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھاکہ پاک-ای پی اے اور اسلام آباد کمشنر آفس نے مونال کو بند کرکے سیکریٹریٹ پولیس میں اس میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گرائے گئے درختوں اور اراضی کی تصاویر سوشل میڈیا میں زیر گردش تھیں جنہیں پاک-ای پی اے اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے چیف کمشنر سے شیئر کیا تھا
علاوہ ازیں دارالحکومت کی انتظامیہ نے چھاپا مارا جس میں آن لائن گردش کرنے والی تصاویر کی تصدیق ہوئی، چھاپے کے دوران 2 افراد کو گرفتار کیا گیا اور کوہثار پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اسی دوران سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے تحفظ اور پتھروں کی کرشنگ سے متعلق کیس لارجر بینچ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا اور سپریم کورٹ نے فوری طور پر نیشنل پارک میں تمام تعمیراتی سرگرمیاں روکنے کا حکم دیا۔
محمد سلیم نے کہا کہ پاک-ای پی اے نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ماحولیاتی منظوری کے بغیر قائم کیے گئے ریسٹورنٹس کے خلاف کارروائی کی جو ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچارہے تھے اور آلودگی میں اضافہ کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک امین اسلم اور دیگر عہدیداران آج (بدھ کو) تباہ شدہ جگہ کا دورہ کریں گے اور ریسٹورنٹ انتظامیہ کی جانب سے جگہ کو پہنچائے گئے نقصان کا جائزہ لیں گے۔
متاثرہ زمین پر شجر کاری کا آغاز
دوسری جانب میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام کے ماحولیاتی ونگ نے ریسٹورنٹ بند کرنے کے بعد اس اراضی پر درخت اگانا شروع کردیے جسے مونال کی توسیع کے لیے کلیئر کیا گیا تھا۔
ماحولیاتی ونگ کے عہدیداران نے ڈان کو بتایا کہ ساڑھے 4 لاکھ مربع گز یا 100 کینال اراضی کو ہموار کیا گیا تھا اور درختوں کی ایک بڑی تعداد گرائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شجرکاری مہم کے پہلے مرحلے میں ایک ہزار 125 پودے اگائے جائیں گے جن میں کچنار، انار اور املتاس کے 300 پودے شامل ہوں گے۔
مزید پڑھیں: بنی گالا تجاوزات کیس: اسلام آباد کی حالت کراچی اور لاہور سے بدتر ہے، سپریم کورٹ
چیف کمشنر اور چیئرمین سی ڈی اے نے ڈان کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں فوری طور پر شجرکاری کا آغاز کیا گیا۔
ماحولیاتی ونگ کے عہدیداران نے بتایا تباہ شدہ اراضی کی بحالی کی شجرکاری اور گھاس اگانے کے ذریعے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ تعمیراتی سرگرمی چند ماہ قبل شروع ہوئی تھی لیکن روک دی گئی تھی اور حال ہی میں دوبارہ شروع ہوگئی جبکہ کئی ہفتوں سے سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیر بحث تھا۔
ذرائع نے کہا کہ 2 روز قبل کمشنر اسلام آباد نے متعلقہ حکام کو ریسٹورنٹ کی عمارت فوری طور پر سیل کرنے اور غیر قانونی تعمیرات روکنے کے لیے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں ماحولیاتی ونگ کی جانب سے ریسٹورنٹ کے مالکان کو 2 نوٹسز جاری کیے گئے تھے لیکن اسے روکنے کے لیے عملی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
یہ خبر 20 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی