کورونا وائرس کی وبا کا دنگ کردینے والا عجیب اثر
بہترین حالات میں بھی امریکی شہریوں کو ورزش سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور کورونا وائرس کی وبا سے قبل بھی بمشکل 25 فیصد افراد ہی ہر ہفتے طبی ماہرین کی تجویز کردہ 150 منٹ تک جسمانی سرگرمیوں کا حصہ بنتے تھے۔
مگر نئے نوول کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں کروڑوں امریکی گھروں تک محدود ہوگئے ہیں اور ابتدائی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس سے امریکی شہری پہلے سے زیادہ سست اور کاہل ہوگئے اور یہ اثرات طویل المعیاد بنیادوں تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے سے تو کوئی کام نہیں ہورہا مگر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج کا اطلاق یہاں بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کروڑوں افراد کئی ہفتوں تک لاک ڈاؤن کے نتیجے میں گھروں میں محدود رہے، جس دوران روزمرہ کی جسمانی سرگرمیوں کی شرح بھی گھٹ گئی۔
12 مئی کو ایک ابتدائی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس وبا کے دوران امریکی شہری معمول سے کم ورزش کررہے ہیں جبکہ زیادہ وقت بیٹھ کر اور اسکرینوں کے سامنے گزار رہے ہیں۔
کیمبرج اوپن انگیج کی اس تحقیق میں 3 ہزار بالغ افراد کے طرز زندگی کاوبا سے پہلے اور بعد لیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ سماجی دوری کے اقدامات کے اطلاق کے بعد جسمانی سرگرمیوں کی شرح میں اوسطاً 32 فیصد کمی آگئی۔۔
درحقیقت یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جو لوگ پہلے سے ہی سست طرز زندگی کے عادی تھے، وہ اب اسے آئندہ بھی برقرار رکھنے کا ارادہ رککھتے ہیں۔
مگر کیا چند ہفتے یا مہینے سماجی سرگرمیوں یا ورزش سے دوری سے صحت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
تو اس کا جواب اس تحقیق یں شامل آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر جیکب میئر نے دیتے ہوئے کہا کہ ممکنہ طور پر ہوسکتے ہیں اور ڈر ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد بھی اس طرز زندگی سے لوگ جان نہیں چھڑائیں گے۔
ان کا کہنا تھا 'یہ پہلے بھی کسی کے لیے بھی بہت مشکل تھا کہ جو جسمانی طور پر متحرک نہ ہو، دوبارہ جسمانی طور پر سرگرم ہوجائے، اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ جسمانی طور پر زیادہ متحرک تھے، وہ بھی سست طرز زندگی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، سوال یہ ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد وہ معمول کی سرگرمیوں کی سطح پر لوٹ سکیں گے؟'
سدرن کیلیفورنیا کی پروفیسر گینیوی ڈنٹن نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا۔
وہ اور کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین 800 بالغ افراد کے ایک گروپ میں جسمانی سرگرمیوں میں تبدیلی کی جانچ پڑتال کررہے ہیں اور ابھی مکمل نتائج تو سامنے نہیں آئے، مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ جسمانی سرگرمیوں میں کمی دیکھ رہیں خصوصاً روزانہ چلنے کے قدموں میں۔
ایپل، فٹ بٹ اور دیگر فٹنس ٹریکر ڈیٹا کے اعدادوشمار مختلف ہیں جیسے ایک میں روزانہ چلنے کی سطح میں 50 فیصد کمی دیکھی گئی مگر تمام کمپنیوں کے ریکارڈ سے عندیہ ملتا ہے کہ وبا کے بعد سے لوگون کی جسمانی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے۔
مگر یہ کمی مساوی محسوس نہیں ہوتی اور کم آباد ریاستوں کے مقابلے میں گنجان آباد شہروں میں زیادہ افراد سست طرز زندگی کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
جیکب میئر نے کہا کہ یہ تصور غلط ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد لوگ ایک بار پھر دوبارہ جسمانی طور پر سرگرم ہوجائیں گے۔
جسمانی فٹنس بہت تیزی سے کم ہوتی ہے اور چند ہفتوں تک جسمانی طور پر سرگرم نہ رہنا ہی آکسیجن کو جذب کرنے، خون کے والیوم اور مسلز کی مضبوطی پر اثرانداز ہوسکتا ہے جبکہ فٹنس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے زایدہ وقت درکار ہوتا ہے۔
2015 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ 2 ہفتے تک سست طرز زندگی سے مسلز کی مضبوطی پر مرتب اثرات کو زائل کرنے کے لیے 6 ہفتے درکار ہوتے ہیں۔
تو اگر لوگ کئی ماہ تک زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں تو بحالی کے عمل کے لیے کئی برس بھی درکار ہوسکتے ہیں کیونکہ ان فٹ ہوونے کے بعد ورزش پہلے سے بھی زیادہ ناگوار محسوس ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن لوگوں نے وبا کے دوران ورزش کرنا چھوڑ دی ان کی ذہنی صحت پر بھی متاثر ہوئی جبکہ یہ وبا خود ذہنی صحت کے لیے خطرہ ہے۔
ایسے متعد شواہد سامنے آچکے ہیں کہ جسمانی سرگرمیاں ڈپریشن جیسے مسائل کی روک تھام یا کمی لانے میں مدد دیتی ہیں جبکہ سست طرز زندگی کے نتیجے میں ذہنی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔