• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

'ریلوے اور میں کسی صوبے کے ماتحت نہیں، ٹرین چلے گی تو پورے ملک میں چلے گی'

شائع May 17, 2020
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد—فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ملک میں ٹرین سروس کی بحالی کے حوالے سے درپیش معاملات پر کہا ہے کہ وہ اور محکمہ ریلوے کسی صوبے کے ماتحت نہیں ہیں اور اگر ریل چلے گی تو پورے پاکستان میں چلے گی۔

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ محکمہ ریلوے کو کہا ہے کہ وہ تیاری رکھے ہم منگل کو یا تو عید کے لیے ٹرانیں نہ چلانے کا فیصلہ کریں گے یا پھر ٹرین چلائیں گے، مجھے صرف عمران خان سے ملاقات کا انتظار ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی صوبے کے ماتحت نہیں ہوں، یہاں ٹڈیوں کو بھی پر لگ گئے ہیں۔

وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ میں نے کہا کہ دکانوں کے شٹر کھول دوں، انہوں نے اس وقت کھولے جب لوگ تنگ آچکے تھے، عید پر 50 فیصد لوگ خریداری کرتے ہیں، 50 فیصد کاروبار عید پر ہوتا ہے جبکہ دینی مدارس کا 50 فیصد خرچ رمضان میں ملتا ہے لیکن آپ نے ہر ایک کو بالکل آخر میں اجازت دی ہے۔

شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ریلوے کی بکنگ کے 24 کروڑ روپے ہمارے پاس جمع ہے، ہماری ایک بات سمجھی جائے کہ اگر 15 ٹرینیں 2 سے 3 دن بعد شروع کریں گے تو چھتوں پر بھی لوگ ہوں گے، پھر میں تو ٹرین نہیں چلا سکتا اور پھر لوگ کہیں گے شیخ رشید نے وائرس پھیلا دیا۔

مزید پڑھیں: ٹرینیں 10 مئی سے چلانے کے فیصلے پر تمام صوبوں کی حمایت نہیں ملی،شیخ رشید

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ یقین دہانی تھی کہ آج ہمیں اجازت مل جائے گی اور ہم کل سے ٹرینیں چلائیں گے تاہم اب ہم نے بدھ کا دن حتمی رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے عمران خان کے ماتحت ہے، 'یہ اللہ کے بعد عمران خان اور پھر میرے ماتحت ہے اور میں کوئی تھکا ہوا وزیر نہیں ہوں میرے کوئی رنگ پسٹن نہیں بیٹھے ہوئے کہ آپ ساری سواریوں کی اجازت دیں لیکن ریل کو نہ دیں'۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ ہم سالانہ 7 کروڑ سواریاں اٹھاتے ہیں جبکہ ہم 1861 کا ٹریک لے کر چل رہے ہیں۔

وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ہم ایس او پی کے تحت ٹرین چلانا چاہتے ہیں، ہمیں لوگوں کا درد ہے، لہٰذا اگر ہمیں بدھ تک اجازت نہ ملی تو پھر ریلوے حکام کو کہتا ہوں کہ وہ لوگوں کے 24 کروڑ روپے 15 روز میں واپس کردیں۔

اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے 2 برسوں میں 5 روپے کی درآمدات بھی نہیں کی بلکہ پرانے ڈبوں کو صحیح کرکے لگایا۔

ٹرینوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کراچی جانا ہے، مراد علی شاہ کو پتہ ہے کہ ہماری 70 اپ اینڈ 70 ڈاؤن ٹرینیں کراچی سے چلتی تھی جبکہ اس کے بغیر اب ہماری 15 ٹرینیں ہیں تاہم اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم راولپنڈی یا لاہور کا ٹریک کھول کر لوگوں کو لے آئیں گے تو یہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کراچی کا ٹریک کھلے گا تو ریلوے چلے گی، ریلوے پنجاب کی نہیں پاکستان کی ہے، ہم صرف اسے پنجاب میں چلانے کا تاثر نہیں دینا چاہتے۔

شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں ٹرین چلانے کی اجازت نہ ملی تو ہاتھ جوڑ کر پیسے واپس کردیں گے اور پھر عید کے بعد چلائیں گے، میری آخری استدعا ہے کہ ہمیں ٹرین کھولنے دیں۔

اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ وہ خود بھی ٹرین چلانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں تاہم انہیں عمران خان کی طرف سے اجازت نہیں ہے اور میں ان کے فیصلے کا منتظر ہوں۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں کسی صوبے کے تابع وزیر نہیں ہوں اور اگر ریل چلے گی تو پورے پاکستان میں چلے گی صرف پنجاب میں نہیں۔

اس موقع پر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ٹکٹ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کر رہے جبکہ بھارت نے دوگنا ٹکٹ بڑھایا ہے، ہمارا ماہانہ ساڑھے 5 ارب روپے کا خسارہ ہے اور پھر بھی ہم اسے چلانے جارہے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ یہ غریب کی سواری ہے۔

شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کے فیصلے کا منتظر ہوں، یہ ریلوے کسی صوبے کے وزیراعلیٰ یا چیف سیکریٹری کے نہ تو تابع ہے اور نہ ہی ان کی منتظر ہے، ریلوے چاروں صوبوں کی زنجیر ہے اور ہم منگل تک ٹرین چلانے کا انتظار کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: خدشہ ہے کہیں محکمہ ریلوے دیوالیہ نہ ہوجائے، شیخ رشید

انہوں نے کہا کہ اگر کل یا زیادہ سے زیادہ پڑسوں تک انہیں ٹرین چلانے کی اجازت مل جائے تو وہ ایس او پی پر کام کریں گے تاہم اس کے بعد وہ ایس او پی پر کام نہیں کرسکیں گے کیونکہ 2 لاکھ لوگوں نے گھر جانا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں زیادہ یہیں بتایا جارہا ہے کہ سندھ اور بلوچستان سے زیادہ (مسئلہ) ہے، میں مراد علی شاہ سے فون پر بات کرسکتا ہوں میرے اس سے تعلقات ہیں لیکن میں یہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں مراد علی شاہ کے ماتحت نہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کراچی سرکلر ریلوے کا کام ہو تو میں مراد علی شاہ سے بات کروں لیکن یہ پاکستان ریلوے ہے اور یہ وزیراعظم کے ماتحت ہے، مراد علی شاہ کا مسئلہ کراچی کا ہے جبکہ یہ پاکستان کا معاملہ ہے۔

دوران گفتگو وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں 90 دن کی بکنگ ہوتی ہے جبکہ 60 دن گزر گئے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بسوں اور جہازوں کو اجازت دی ہے تو ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کو ذرا ٹھہر کر سمجھ آجائے گی، جب ہم نے کہہ دیا کہ ہم نہیں چلائیں گے تو پھر کراچی میں ہی لوگ ان کے خلاف بات کریں گے کیونکہ ٹرین ہی واحد ذریعہ ہے جو لوگوں کو ملاتی ہے۔

سیاسی معاملات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں عمران خان کی حکومت کو 5 سال پورے کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں نیب قانون میں ترمیم کو ووٹ نہیں دوں گا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ترمیم کروانا چاہتی ہیں لہٰذا جو ترمیم کرے گا وہ عوام کی نظروں میں خراب ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ 31 جولائی تک دونوں طرف دائیں اور بائیں جھاڑو پھرے گی اور بڑی عید سے پہلے جھاڑو پھر جانی ہے۔

ریلوے کے ملازمین کو نہ نکالنے کا کہتے ہوئے کہا کہ ہم اس ماہ عید سے پہلے تنخواہیں اور پینشن دیں گے جبکہ آئندہ ماہ کی بھی وقت پر تنخواہیں دیں گے اس کے بعد معافی مانگ لیں گے۔

کراچی میں فی الحال ٹرین نہیں چلے گی، وزیر ٹرانسپورٹ سندھ

دوسری جانب وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس شاہ نے شیخ رشید کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں فی الحال ٹرین نہیں چلے گی۔

انہوں نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عوام کی فکر ہے اور آپ کو ٹرین کی، ٹرینیں چلی تو پھر کورونا وائرس پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ عید کی تعطیلات کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ چلانے پر رضامند

اویس شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی سندھ کا بڑا شہر ہے، یہاں ہر صوبے کے عوام رہتے ہیں لہٰذا ٹرین کی بحالی سے ریلوے اسٹیشنز پر ہجوم بڑھ جائے گا۔

صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق شیخ رشید کو عوام کی زندگیوں کی فکر کم اور ٹرین چلانے کی فکر زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاق، سندھ سے چلتا ہے سندھ، وفاق سے نہیں، آپ صوبوں کے محتاج نہیں تو صوبے بھی آپ کے محتاج نہیں ہیں۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ عید قریب ہے اگر ٹرینں کھلیں تو پھر ایک لاکھ سے اوپر کیسز ہوجائیں گے۔

خیال رہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جہاں پہلے بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی لگائی تھی وہیں اندرون ملک پروازوں سمیت ٹرینوں کو بھی بند کردیا تھا۔

24 مارچ کو پاکستان ریلوے نے تمام مسافر ٹرینوں کا آپریشن معطل کیا جو تاحال معطل ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ ملک میں 16 مئی سے محدود اندرون ملک پروازوں کا آپریشن بحال ہوچکا ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی کا اعلان ہوچکا ہے۔

تاہم سندھ نے پہلے پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی سے انکار کیا تھا بعد ازاں ایس او پیز کے ساتھ عید کی تعطیلات کے بعد ٹرانسپورٹ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024