'بھارت طالبان سے مذاکرات کو امن عمل میں مددگار سمجھتا ہے تو اسے ایسا کرنا چاہیے'
واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ اگر بھارت کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں سے بات کرکے امن عمل میں مدد ملے تو اسے بات کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ بھارتی اخبار دی ہندو کو ایک انٹرویو میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ یہ بھارت-طالبان رابطے کے لیے 'مناسب' ہوگا۔
ادھر ڈان اخبار میں برطانوی نشریاتی ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا امریکا کے لیے پاکستان کے سفیر اسد خان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کی جانب سے اس رائے پر جواب دینا ہے'۔
مزید پڑھیں: افغانستان: گردیز میں دھماکے سے 5 افراد ہلاک، طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان کے ساتھ بھارت کے مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو اسد خان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شمولیت امن عمل میں مدد دے گی تو ہم ان کے فیصلے کو بعد میں دیکھیں گے لیکن یہ فیصلہ ہمارا نہیں ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں کرنا چاہیے۔
تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ بھارتی کے مصروف عمل ہونے کے لیے تیار ہیں یا اسلام آباد نے ایسے اقدام کی حمایت کی ہے۔
پاکستان سفیر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ جلد زلمے خلیل زاد سے بات کریں گے اور وہ بھارتی میڈیا اکاؤنٹس پر نہیں جائیں گے جہاں مختلف معاملات 'مفروضے' اور خود سے بیان کردہ ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ منگل کو افغانستان میں 2 حملوں نے امن کے لیے پیچیگیوں میں بڑھا دیا تھا کیونکہ پہلا حملہ کابل میں ہسپتال کے زچگی وارڈ میں کیا گیا تھا جہاں 2 بچوں سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ دوسرا حملہ مشرقی افغانستان میں جنازے میں کیا گیا تھا جس سے 32 افرا جان سے گئے تھے۔
امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عسکریت پسند تنظیم داعش کو ٹھہرایا گیا تھا۔
بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے فوج کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ حملوں کے بعد طالبان کے خلاف 'جارحانہ' پالیسی کو اپنائیں۔
علاوہ ازیں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا بھی یہ بیان سامنے آیا تھا کہ افغانستان میں حالیہ حملوں نے امن عمل سے متعلق سوالات کھڑے کر دیے ہیں لیکن چیلنجز کے باوجود ہم بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ 'امن کا راستہ سیدھا نہیں ہے اور اس کی راہ میں کئی چیلنجز اور مشکلات حائل ہیں، ہم یہ پہلے سے جانتے ہیں لیکن امن کی طرف بڑھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔'
انہوں نے کہا تھا کہ 'افغانستان اور عالمی سطح پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ افغانستان کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، اس کا حل سیاسی ہے اور موجودہ وقت میں افغانوں کے درمیان امن معاہدہ ہی اس کا حقیقی حل ہے۔'
یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور قیدیوں کے تبادلے کے بدلے کابل انتظامیہ سے امن مذاکرات شروع کریں گے۔
اس کے بدلے میں امریکا اور غیر ملکی افواج نے 14 ماہ میں افغان سرزمین چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں حالیہ حملوں نے امن عمل پر سوالات کھڑے کردیے ہیں، زلمے خلیل زاد
طالبان اور امریکا میں معاہدہ ہوا تھا کہ امریکی افواج طالبان پر حملہ نہیں کریں گی لیکن اگر افغان فورسز پر حملہ کیا گیا تو وہ طالبان پر حملے کا حق رکھتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملوں میں نمایاں کمی آئی لیکن حالیہ عرصے میں طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اوسطاً روزانہ 55 حملے کیے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔