کورونا کے خلاف کامیاب حکمت عملی کے بعد ویتنام میں زندگی بحال
کم وسائل کے باوجود منظم طریقے اور حکمت عملی کے ساتھ کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے والے جنوب مشرقی ایشیا کے ملک ویتنام میں کورونا کے باعث نافذ کیے گئے جزوی لاک ڈاؤن کو اگرچہ اپریل کے وسط میں ہی مزید آسان کردیا گیا تھا مگر مئی کے وسط میں تقریبا 75 فیصد کاروبار اور معمولات زندگی بحال کردی گئیں۔
ویتنام میں 15 مئی کی صبح تک کورونا کے باعث ایک بھی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی تھی اور وہاں مریضوں کی تعداد 312 تک جا پہنچی تھیں۔
ویتنام میں کورونا کا پہلا کیس جنوری 2020 کے آخر میں سامنے آیا تھا اور وہاں کی حکومت نے پہلا کیس سامنے آنے کے بعد ہی وبا سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانا شروع کردیے تھے۔
چین، جنوبی کوریا اور دیگر یورپی و ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم آمدنی والے اس ملک نے محدود وسائل کے باوجود کورونا کے خلاف کامیاب حکمت عملی بناکر نہ صرف وہاں ہلاکتوں کو روکا بلکہ بیماری کو پھیلنے سے بھی روکنے میں کامیاب رہا۔
ویتنام کی آبادی 10 کروڑ کے قریب ہے اور اس ملک کی کورونا کے مرکز سمجھے جانے والے ملک چین کے ساتھ ایک ہزار کلو میٹر طویل زمینی سرحد بھی ہے جب کہ ویتنام کے دیگر پڑوسی ممالک میں بھی کورونا کی وبا میں تیزی دیکھی گئی اور وہاں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تاہم ویتنام کی حکومت نے چند چھوٹے اقدامات کرتے ہوئے اس وبا پر قابو پایا اور انتہائی کم وقت میں بڑی وبا کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی۔
ویتنام نے بیرون ممالک سے آنے والے شہریوں کو قرنطینہ کرکے ان کے ٹیسٹ کرنے کے بعد انہیں گھروں تک جانے دیا جب کہ کسی بھی کورونا کے مشکوک مریض کا ٹیسٹ کرنے سمیت اس پر ٹیکنالوجی اور پولیس کے ذریعے کڑی نگرانی کی۔
ویتنام کے ماہرین نے کورونا کے ٹیسٹ کے لیے بھی اپنے سستے کٹ تیار کیے اور حکومت نے درمیانے پیمانے پر ٹیسٹ کرکے فروری و مارچ میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا تاہم حکومت نے کچھ مشکوک گلی و محلوں کو مکمل طور پر بند کردیا تھا۔
کامیاب حکمت عملی کے بعد ویتنام کی حکومت نے اپریل کے وسط میں ہی جزوی لاک ڈاؤن کو بھی نرم کرنا شروع کردیا تھا اور ویتنام کی حکومت نے مئی کے پہلے ہی ہفتے میں اسکولوں کو بھی کھول دیا تھا۔
تاہم اب حکومت نے کیسز میں کمی کے بعد مزید کاروبار کو کھولنے سمیت پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات کو بھی کھول دیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق کئی دن سے کورونا کا کوئی بھی نیا کیس سامنے نہ آنے کے بعد ویتنام کی حکومت نے تفریحی مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور مقامی پروازوں کو بھی بحال کردیا اور مجموعی طور پر ملک بھر میں 75 فیصد کاروبار زندگی بحال ہوگیا۔
حکومت نے عوام پر زیادہ سے زیادہ تفریحی مقامات پر جانے اور مقامی طور پر سفر کرنے پر زور دیا ہے تاکہ سیاحت سے ہر سال کمائے جانے والے اربوں ڈالرز کے نقصان کا کچھ ازالہ ہوسکے۔
چینی نشریاتی ادارے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ویتنام کی حکومت نے 10 مئی سے سیاحتی مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ کو کھولتے ہوئے مقامی افراد کو سیاحت کی اجازت دی۔
ویتنامی حکام نے اگرچہ تاحال بیرون ممالک پروازوں کی سروس کو بند کر رکھا ہے، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی حکومت چند ممالک کے دوران سخت انتظامات کے تحت سروس کا آغاز کرے گی۔
ادھر رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اگرچہ 14 مئی تک ویتنام میں کورونا سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی تھی تاہم حکومت اس وقت ایک انتہائی بیمار مریض کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے تاہم اس میں حکومت کو اہم مشکلات درپیش ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت ویتنامی حکام برطانوی نژاد پائلٹ کی زندگی بچانے میں مصروف ہیں جس کے گردوں نے 80 فیصد کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
مذکورہ شخص کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد شدید علیل ہوگیا تھا اور ڈاکٹرز نے اب اس کی زندگی بچانے کے لیے گردوں کے ٹرانسپلانٹ کی تجویز دی ہے اور ان کی زندگی بچانے کے لیے 10 افراد نے انہیں گردہ عطیہ کرنے کی بھی حامی بھری تاہم 15 مئی تک ان کے ٹرانسپلانٹ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا۔
ویتنام کی حکومت نے کورونا کے شدید علیل مریض کی زندگی بچانے کی کوششوں کے دوران ہی ملک بھر میں 75 فیصد کاروبار زندگی کو بحال کرکے کئی امیر ممالک کے لیے مثال قائم کردی۔